وزیر اعظم عمران خان اور ایرانی قیادت کے درمیان ملاقات کا اعلامیہ بتاتا ہے کہ خلیج میںامن و سلامتی کے فروغ کے لئے پاکستانی کوشش کی پذیرائی جاری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور صدر حسن روحانی سے ایران سعودیہ کشیدگی ہی نہیں پاک ایران تجارتی و سیاسی تعاون پر بھی تفصیل سے بات کی۔ اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم نے ایرانی قیادت سے دو طرفہ تعلقات کی تاریخی اہمیت اور تعاون پر بات کی۔ وزیر اعظم نے کشمیریوں کی حمایت پر ایرانی سپریم لیڈر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایران سعودی جنگ نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ ازخود دو برادر مسلم ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے کام کر رہا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور صدر حسن روحانی نے قیام امن کے لئے پاکستان کی کوششوں کا خیر مقدم کیا اور یقین دلایا کہ مثبت رویہ کا جواب مثبت ہو گا۔ ایرانی قیادت نے یمن میں جنگ بندی کا بھی کہا۔ خلیج میں کشیدگی کی قدیم اور تاریخی وجہ عرب وعجم کے اس امتیاز پر اصرار ہے جسے نبی کریمؐ اپنے الوداعی خطے میں مسترد کر چکے ہیں۔ دوسری وجہ اس خطے میں امریکہ اور اس کی طفیلی ریاست اسرائیل کی موجودگی ہے۔ عالمی طاقتوں کی ہمیشہ سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ جس علاقے میں داخل ہوتی ہیں وہاں کی مقامی قوتوں کے درمیان کشیدگی اور تصادم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ خلیج کے عرب ممالک سعودی عرب کی قیادت میں ایک بلاک کی صورت کام کرتے ہیں۔ یہ بلاک اپنے داخلی مزاج کو مختلف مفادات کے ساتھ جوڑ لیتا ہے۔ عرب بلاک کی وجہ سے اسرائیل کو مضبوط ہونے کا موقع ملا اور افغانستان میں امریکی مقاصد آگے بڑھے۔ ایران نے کچھ عرب ریاستوں کو ساتھ ملا کر جوابی طاقت کو جمع کیا۔ جہاں ریاست سے اتحاد نہ ہو سکا وہاں سیاسی و مزاحمتی گروہوںکے ساتھ اتحاد قائم کر لیا۔ سعودی عرب اور ایران دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ خلیج کا تیل عالمی طاقتوں کے کنٹرول میں ہے۔ تیل کی سپلائی میں کمی بیشی کسی بھی وقت دنیا کے کسی حصے میں بحران پیدا کر سکتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایران نواز سمجھے جانے والے حوثی باغیوں نے سعودی عرب میں امریکہ کے اشتراک سے کام کرنے والی کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر حملہ کیا تو ساری دنیا میں تیل کی مارکیٹ متاثر ہوئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جارحانہ عزائم ظاہرکرتے ہوئے امریکی اداروں کو ہدایت کی کہ وہ مقامی ذخائر سے تیل استعمال کرنے کی حکمت عملی وضع کریں۔ ایران اور سعودی عرب نے خطے کے تنازعات میں حریف گروپوں کی سرپرستی کی۔ شام کی حکومت کی ایران نے حمایت کی تو باغیوں کو سعودی حمایت حاصل ہے۔ یمن کی حکومت کو سعودی عرب کی حمایت ملی تو حوثی باغی ایران کے اتحادی کہلاتے ہیں۔ دونوں کے درمیان کشمکش عراق میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ لبنان‘ قطر‘ مراکو‘ نائیجریا ‘ افغانستان اور خود پاکستان بھی اپنے ان دونوں برادر ممالک کی باہمی کشیدگی سے متاثر ہوا ہے۔ یہ تصادم جیو پالیٹکس ‘ اقتصادی میدان اور مسلکی اختلافات کی صورت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی مدد کرتا رہا تو چین اور روس ایران کے حق میں بات کرتے ہیں۔ دونوں کے درمیان یہ کشمکش مسلم امہ کی وحدت اور اتحاد کو پارہ پارہ کر رہی ہے۔ مئی 2017ء میں ایرانی انتخابات میں حسن روحانی صدر منتخب ہوئے۔ انہیں لبرل اور اصلاح پسند حلقوں کی ایک مضبوط آواز سمجھا جاتا ہے۔ رواں برس خلیج میں ایران اور امریکہ کئی بار مدمقابل آئے۔ ایران نے برطانیہ کا ایک چھوٹا بحری جہاز یہ کہہ کر قبضے میں لے لیا کہ وہ سمندری حدود کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا‘ اس دوران ایران پر الزام لگا کہ اس نے آئل ٹینکروں پر میزائل گرائے ہیں۔ دو ماہ قبل ایران نے امریکہ کا ایک جاسوس ڈرون طیارہ مار گرایا۔ امریکہ کا کہنا تھا کہ ایران نے جارحیت کی جبکہ ایران نے ڈرون طیارے کو مار گرانے کا سارا ریکارڈ پیش کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے اسے اپنی فضائی حدودکی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکہ نے محدود حملے کا فیصلہ کیا جو آخری وقت پر تبدیل ہو گیا۔ ایران سعودیہ کشیدگی نے امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کو موقع دیاہے کہ وہ خطے کی دولت کو یہاںکے عوام کی خوشحالی اور آسودگی پر خرچ نہ ہونے دیں۔وزیراعظم عمران خان ستمبر 2019ء میں امریکہ گئے تو صدر ٹرمپ نے انہیں ایران سے کشیدگی کم کرنے کے لئے کردارادا کرنے کی اپیل کی۔ شاید امریکہ اپنی پالیسی کو تبدیل کر رہا ہے۔ وزیر اعظم امریکہ اور ایران کے مابین اختلافات کو کم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے اثرات پوری دنیا پر مثبت انداز میں مرتب ہوں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ امریکہ‘ سعودی عرب اور ایران پاکستان کے مصالحتی مشن کی حمایت کر رہے ہیں۔ سفارتی تنہائی کے طعنے سننے والے پاکستان کو خطے اور عالمی امن کے لئے بھر پور تائید ملنا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کو علاقائی طاقت کے طور پر ایک کردار مل رہا ہے۔ بھارت اپنی تجارتی قوت اور منڈی کی بنیاد پر خود کو علاقائی طاقت تسلیم کرانے کی تگ و دو میں ہے۔ یقینا پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی فعال حکمت عملی نے یہ موقع تخلیق کیا ہے۔ ایران کی طرح سعودی عرب نے بھی مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ امن کے امکانات موجود ہیں، اگلے مرحلے میں تمام فریق اختلافی امور کی نشاندہی کر کے ان کو طے کرنے کے طریقہ کار پر بات کر سکتے ہیں۔ ہم جس دنیامیں رہتے ہیں۔ یہ اثرورسوخ سے فوائد کشید کرنے کی دنیا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے کے بعد خلیج میں پاکستان کا نیا کردارتجارتی ‘ معاشی اور سیاسی فوائد کی نئی صورت گری کر سکتا ہے۔