جب سے کرونا وائرس کی یلغار ہوئی ہے دنیا بھر کے حکمران انکے وز یر و مشیر روز سر جوڑ کے بیٹھتے ہیں اور روز اپنی اپنی قوم کو حوصلہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں اگرچہ بہت خطرناک آفت ہے لیکن ہم حوصلہ نہیں ہاریں گے۔ اچھی اور بری دونوں قسم کی باتیں ہر دارالحکومت سے سننے میں آ رہی ہیں۔ ہر حکمران کو اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے ساتھ معاشی صورتحال کی آئے دن خراب ہوتی ہوئی صحت کی فکر ہے۔غریب طبقہ خصوصاً دہاڑی دار تو کرونا کا شکار نہ بھی ہو تو بھوک اسکو موت کی دہلیز تک لے جانے کے لئے کافی ہے۔ پہلے مرحلے میں یہی طبقہ معاشی بلوے کا شکار ہوا ہے۔لیکن کرونا جیسی وبائی بیماری کے طول پکڑنے کی صورت میں سفید پوش اور پھر ہو کوئی جتنا بھی مالدار ہے، اس سے بری طرح متاثر ہو گا۔پہلے مرحلے میں حکومتیں کرونا کے پھیلائو کو روکنے کے ساتھ نچلے طبقے کی مالی مشکلات کو کم سے کم رکھنے کے لئے معاشی پیکیج آفر کر رہی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کرونا سے ابھی تک اس شدت سے متاثر نہیں ہوا جس طرح یورپ اور اب امریکہ ہے۔لیکن ہمارے ہاں ان تمام ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ لوگ غربت کا شکار ہیں۔ کرونا سے پہلے ہی پاکستان میں پانچ کروڑ کے قریب لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ کرونا کے بعد جزوی یا کلی لاک ڈائون کے بعد اس تعداد میں دنوں میں اضافہ ہوا ہے۔عمران خان جیسے وزیر اعظم کے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج دو حوالوں سے ہے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کی معاشی صورتحال بہت تگ و دو کے بعد کچھ بہتری کی طرف گامزن ہوئی ہی تھی کہ کرونا نے ایک شدید دھچکا پہنچایا۔ دوسرا، عمران خان مدینہ کی ریاست بنانے کے دعویدار ہیں ۔ انکا مشن پہلے دن سے نچلے طبقے کو اوپر اٹھانے کا ہے۔ اس آفت کے بعد جو طبقے بہتر تھے جن میں دہاڑی دار مزدور چھوٹے کاروبار کرنے والے، ریڑھی بان، باربر، کارپینٹر، الیکٹریشن غرضیکہ بہت سے چھوٹے کاریگر شامل ہیں اورمعمول کی گزر بسرکر لیتے تھے، انکو یکدم گھروں میں بیٹھنا پڑ گیا ۔ ہمارے ہاں بہت زیادہ بچت کا رواج بھی نہیں ہے کہ برے دنوں کے لئے کچھ بچا کر رکھ لیا جائے۔ اس صورتحال میں یہ طبقہ دنوں میں بد حالی کا شکار ہوا ہے۔حکومت کے لئے ایک طرف کرونا کی آفت کی روک تھام کے لئے انتہائی بوسیدہ صحت کی سہولیات کو بہترین کرنے کا چیلنج تھا ۔دوسری طرف ملکی معیشت کی ڈوبتی نیّا تھی اور سب سے بڑھکر غریب اور نادار طبقہ، جو ہر دو صورتوں میں جان کنی کی حالت میں تھا۔ بھوک یا کرونا، عمران خان بار بار اس پر بات کر رہے ہیں۔لاک ڈائون پر وفاقی حکومت کی گومگو کی کیفیت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔اپوزیشن کے بیانات میں وزیر اعظم کی فیصلہ کرنے کی قوت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کبھی انکی ذہنی کیفیت کے حوالے سے تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔میڈیاکا ایک بڑا حصہ بھی اس قسم کے خیالات کی تائید کر رہا ہے اور زیادہ تر مبصرین کے خیال میں عمران خان کنفیوژن کا شکار ہیں۔کیا یہ واقعی کنفیوژن ہے۔ میرے خیال میں یہ کنفیوژن با لکل نہیں ہے۔ یہ وہ بے بسی ہے جو اس دہائیوں سے موجود اشرافیہ کی مدد اور خدمت کے لئے تشکیل کئے گئے نظام کو بدلنے میں مشکلات کی وجہ سے ہے۔وزیر اعظم عمران خان جس قسم کے نظریات کے ساتھ کرسیٔ اقتدار پر براجمان ہوئے تھے ،ان پر عملدرآمد کے لئے انکو اپنے جیسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی ضرورت ہے۔اقتدار کے حصول کے لئے انہوں نے جو کمپرومائز کیا اور الیکٹیبلز کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے وہ اب انکی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ الیکٹیبلز صرف اپنے حلقے میں سیٹ نکالنے میں مہارت نہیں رکھتے بلکہ یہ مشترکہ مفادات رکھنے والے ایک بہت بڑے مافیا کا ہمیشہ سے حصہ رہے ہیں جس میں بیوروکریٹس، صنعتکار، مذہبی اور سیاسی طاقت کے حامل لوگ اور سب سے بڑھ کر صحیح سرکلز میں اپنا اثر و رسوخ جس میں ملک کے اندر اور باہر دونوں قسم کی طاقتیں شامل ہیں۔اسکے علاوہ انکی آپس کی رشتے داریاں اسکو مزید تقویت دیتی ہیں۔ ان رشتے داریوں کے حوالے سے کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں جاگیرداروں، بڑے کاروباری اور بیورو کریسی کی باہمی رشتے داریوں کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔یہ گٹھ جوڑ اتنا پرانا اور مضبوط ہے کہ عمران خان اپنی پوری طاقت صرف کر کے بھی اس کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس سارے گٹھ جوڑ کو توڑنے کیلئے انہیں اپنے جیسے مضبوط اور متعدد لوگ چاہئیںاور ظاہر ہے اقتدار میں بیٹھ کر ہی ان مافیاز کو توڑا جا سکتا ہے۔ اقتدار سے باہر بیٹھ کر آپ صرف نعرے اور دعوے ہی کر سکتے ہیں۔اگر آپکا انحصار صرف سرکاری مشینری پر ہو گا تو کسی تبدیلی کی امید نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ وہ تو سارے اشرافیہ کے خدمت گار ہیں جو عرصہ دراز سے کاسئہ لیسی کے ذریعے اپنے لئے بھی فائدے اٹھاتے ہیں اور انکی خدمت بھی کرتے ہیں۔ ؑعمران خان جس شخصیت کے مالک ہیں اور جتنی صراحت سے وہ اپنے مشن اور نظریے کو بیان کرتے رہے ہیں اور اس پر ثابت قدمی دکھائی ہے مجھے ذرا سا بھی شک نہیں ہے کہ وہ کنفیوژ ہیں۔ انکی بے بسی البتہ آئے دن نظر آتی ہے کیونکہ جس طبقے کی ذمہ داری انہوں نے لی ہے اسکو اس حالت میں رہنے کی ہماری اشرافیہ نے ایسی عادت ڈالی ہے کہ وہ اپنے حق کے لئے لڑنا تو دور کی بات ہے آواز اٹھانا بھی گستاخی تصور کرتے ہیں۔عمران خان کے لئے بطور وزیر اعظم یہ دوسری مشکل ہے کہ جس طبقے کیلئے وہ لڑرہے ہیں وہ بھی اس لڑائی میں انکے ساتھ نہیں ہے یا انکی معاملات کے ادراک کی صورت ایسی نہیں ہے کہ وہ سمجھ سکیں کہ وزیر اعظم انکے لئے جان جوکھوں میں ڈال رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں اشرافیہ کو چیلنج کرنے والے کسی اچھے انجام سے دوچار نہیں ہوئے۔وزیر اعظم کیلئے اس وقت اپنی اصلی والی ٹیم کو جمع کرنا اور نچلے طبقے کے ساتھ کھڑے رہنا ہی اس ملک سے مافیائی گٹھ جوڑ ختم کر سکتا ہے۔ بے بسی کی تصویر بنے رہنے سے کام نہیں چلے گا۔ایک جھٹکا وہ اس نظام کو دے چکے ہیں بس ایک اور دھکا دینے کی ضرورت ہے۔