وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان تازہ ٹیلی فونک رابطے میں باہمی دلچسپی کے جن امور پر بات ہوئی ان میں تنازع کشمیر اور افغانستان میں قیام امن کی کوششیں سرفہرست ہیں۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں مغربی مغویوں کی رہائی میں مدد دینے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کے سربراہ سے کہا کہ وہ تنازع کشمیر حل کرائیں۔ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے مابین دو بالمشافہ ملاقاتوں اور متعدد ٹیلی فونک رابطوں کی انفرادیت یہ ہے کہ ہر بار تنازع کشمیر پر بات ہوئی اور صدر ٹرمپ کو ایک سپر پاور کے سربراہ کی حیثیت سے اس تنازع کو حل کرنے میں مدد کا کہا گیا۔ حالیہ برس جولائی میں صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کی پہلی ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سے تنازع کشمیر حل کرانے میں مدد کی درخواست کی ہے۔ ان کے اس انکشاف پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ ان کی ثالثی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ کشمیری قیادت نے بھی خیر مقدمی جذبات کا اظہار کیا۔ تاہم بھارت میں صورت حال ایک دوسرے رخ سے ہنگامہ خیز دکھائی دی۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم نریندر مودی سے وضاحت کا مطالبہ کر دیا۔ خود بی جے پی کے مختلف رہنما اپنے وزیر اعظم سے دیرینہ موقف ترک کر کے تیسرے ملک کی ثالثی قبول کرنے کی بابت سوال کرتے دکھائی دیے۔ نریندر مودی اس معاملے پر خاموش رہے اور کسی طرح کی وضاحت جاری نہ کی۔ ستمبر کے اواخر میں وزیر اعظم عمران خان جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کی خاطر امریکہ پہنچے تو ایک بار پھر صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کی اہمیت یہ تھی کہ اس سے قبل 5اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اس پر اپنا غیر قانونی قبضہ مستحکم کر لیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بین الاقوامی قانون ‘ انسانی و اخلاقی روایات اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے تناظر میں ناصرف جنرل اسمبلی میں کھل کر اپنا موقف پیش کیا بلکہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں بھی انہوں نے مودی سرکار کے اس غیر قانونی عمل پر بات کی۔ صدر ٹرمپ نے اس ملاقات میں کشمیر کا تنازع حل کرنے کے سلسلے میں اپنی مدد کے سابق عزم کا اعادہ کیا تاہم ساتھ ہی ثالثی کو پاکستان و بھارت کی رضا مندی کے ساتھ جوڑ دیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ کشمیر ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین چار جنگیں ہو چکی ہیں۔دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت کے باعث عالمی دفاعی نظام میں اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان لڑائی کی ہر بار وجہ تنازع کشمیر ہی بنا۔ ایسا نہیں کہ اہل کشمیر بھارتی قبضے پر مطمئن ہو کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہتر برسوں کے دوران کشمیری باشندوں نے مسلح مزاحمت اور سیاسی مکالمہ کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا ذریعہ بنایا۔ اہل کشمیر کی بدقسمتی ہے کہ وہ 70ہزارسے زاید جانیں قربان کرنے کے باوجود ابھی تک دنیا کی توجہ حاصل نہیں کر پائے۔ کشمیر میں ساڑھے تین ماہ سے کرفیو نافذ ہے۔ کیا دنیا میں کوئی اور ایسا علاقہ ہے جہاں کی آبادی کو اتنے دنوں تک بندوقوں کے پہرے میں ڈرا کر گھروں میں بند کر دیا گیا ہو اور قابض افواج اسے پرامن قرار دیں؟ عالمی برادری عالمی اداروں اور امریکہ جیسے بڑے ممالک کو سپر پاور کا نام ملنے کی ایک وجہ اور پس منظر یہ بھی ہے کہ یہ سب بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ کشمیر کا تنازع اس وجہ سے زیادہ سنگین ہے کہ یہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والے دو ملکوں کے درمیان ہے۔ اس تنازع کا طے نہ ہونا اور عالمی برادری کا اس کے باشندوں کی ہے لاچارگی پر لاتعلق رہنے کا رویہ کسی نئے تصادم کو جنم دے سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں دنیا محفوظ اور پرامن ہو اس کی خاطر وہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی اور وہاں قابل اعتماد سیاسی نظام بحال کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ قبل ازیں اس ملک میں سوویت یونین کو شکست دے کر اپنی عالمی برتری کا تحفظ کر چکا ہے۔ امریکی پالیسی ساز جانتے ہیں کہ سرد جنگ کا اختتام اس وقت تک ان کے حق میں نہیں ہو سکتا تھا جب تک پاکستان ان کا اتحادی بن کر ایک فعال کردار ادا نہ کرتا۔ آج امریکی بالادستی اور طاقت کی جو شکل دکھائی دیتی ہے وہ پاکستان کی معاونت سے متشکل ہوئی ہے۔ امریکہ کی اس طاقت میں پاکستان کے لئے اگر سپاس گزاری کی تھوڑی گنجائش پیدا کر لی جائے تو اس سے یہ تاثر ختم ہو سکتا ہے کہ امریکہ اپنے سابق اتحادیوں سے وفا نہیں کرتا۔ اس وقت امریکہ کو پوری دنیا میں اخلاقی حوالے سے تنقید کا سامنا ہے‘ اس کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ امریکہ میں معاشی بہتری‘ تارکین وطن کے لئے پابندیوں‘ جنگی اخراجات میں کمی اور دیگر داخلی پالیسیوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ جتنی بڑی بین الاقوامی حیثیت ہوتی ہے اتنی ہی بڑی عالمی ذمہ داریاں نبھانا پڑتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم مودی ان کے دوست ہیں۔ صدر ٹرمپ بھارت سے تجارت بڑھانا چاہتے ہیں۔ بھارت ان کے ذریعے اسرائیل اور دیگر ممالک سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی بدتر ہوتی صورت حال اور بھارتی حکومت کا عالمی ثالثی سے مسلسل انکار تنازع کو ایک بار پھر جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ پاکستان ایک بار پھر افغانستان سے امریکی باعزت انخلا کو یقینی بنانے کے لئے خلوص دل سے کام کر رہا ہے ۔افغان جہاد اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ دونوں کے مضر اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان بھی ایک بڑی معاشی طاقت بن چکا ہوتا۔ امریکہ اگر عالمی تنازعات کو طے کرنے میں مصلحت پسندی سے کام لیتا رہا تو وہ دن دور نہیںجب وہ اپنے ہر اتحادی کو کھو دے گا اور اس کی عالمی حیثیت برقرار نہیں رہ سکے گی۔