وزیر اعظم کادورۂ امریکہ مکمل ہوا، تبصرے، تجزیے، اپوزیشن کی جانب سے تنقید جاری ہے۔ کچھ لوگ سنجیدہ تجزیہ کر رہے ہیں اور کچھ مخالفت برائے مخالفت میں ایسے ایسے غیر سنجیدہ تبصرے فرما رہے ہیں کہ سوائے ان کی باتوں سے لطف اندوز ہونے کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔حکومت کی طرف سے بھی جس انداز میںاس دورے کوامریکہ فتح کرنے کے معرکے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہ بھی کوئی سنجیدہ رویہ نہیں ہے۔ حکومت کے ابتدائی دنوں میں جب امریکہ سے رابطوں کا آغاز ہوا تو صورتحال کچھ اچھی نہیں تھی۔لیکن ابتدائی رابطوں اور پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورۂ امریکہ کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی تجدید کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ امریکہ میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تجدید تعلقات کے کئی اجلاس کئے،لیکن اسکی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟امریکہ کے ایک فون پر بچھ جانے والاجنرل مشرف کا پاکستان،سرد جنگ میں امریکہ کو روس کے خلاف فتح دلانے والا جنرل ضیاء کا پاکستان اور اس سے پہلے جنرل ایوب کا پاکستان جسےmost allied of the ally کہا جاتا تھا۔آخر ایسا کیا ہوا کہ کہ تجدید تعلقات کی ضرورت پڑ گئی۔مجھے پنجاب پولیس یاد آ رہی ہے جو ہاتھ میں پکڑی ہوئی چرس یا افیم کی پڑیا تلاشی کے دوران جس شخص کی جامہ تلاشی لی جارہی ہوتی ہے اسکی جیب میں ڈال کر کیس بنا دیتی ہے۔بندہ پریشان ہی رہتا ہے کہ اس نے زندگی میں کبھی ان چیزوں کی شکل نہیں دیکھی یہ کیسے اسکی جیب سے برآمد ہو گئی۔اسی قسم کے بہانے امریکہ ہم پر دبائو بڑھانے ہی نہیں کم کرنے کے لئے بھی گھڑ لیتا ہے۔ جیسا کہ اب وزیر اعظم عمران خان کے دورے میں ہوا ہے کہ امریکہ پاکستان کی مدد کرنے کو بچھا جا رہا ہے۔ایک توقع کی جارہی ہے اور وزیر اعظم بھی بارہا ان دنوں میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان پرانے تعلقات بحال ہونے جا رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ پرانے تعلقات کیا تھے۔ کیا جب ہم نے بڈ بیر کا اڈہ امریکہ کو دیا تھا، یا پھر روس کے افغانستان میں قبضے کے خلاف جہاد ، یا پھر جنرل مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ والے تعلقات۔یہ تمام تعلقات امریکی مقولے There is no free lunch کی بنیاد پر تھے۔ بقول عمران خان ہمیں کرائے کی بندوق کے طور پراستعمال کیا گیا۔ گزشتہ دہائیوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس قسم کے خوشگوار تعلقات جو آج تک امریکہ سے رہے ہیں وہ ہمیشہ غلط نتائج کے حامل تھے۔ ہمیں نئی بنیاد رکھنی ہے اور اسکی بنیاد صرف ایک مضبوط معیشت کھڑی کر کے رکھی جا سکتی ہے۔پرانےtransactional تعلقات کا انجام کئی بار ہم دیکھ چکے ہیں۔ایک خوش آئند بات وزیر اعظم کے دورے سے پہلے ہی نظر آ رہی تھی جو اس دورے میں کسی حد تک منکشف بھی ہوئی ہے کہ برطانیہ، یورپ جیسے تگڑے ممالک ہی نہیں پاکستان نے بھی اب امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کر بات کرنا شروع کر دی ہے۔ پاکستان نہ صرف یہ کہ بار بار کے ڈومور سے زچ ہو چکا ہے بلکہ یہ احساس جہاں دنیا کو ہو رہا ہے ہمیں بھی یقینا ہو گا کہ امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر اپنا وقت پورا کر چکا ہے اور اب جس قسم کے حالات اس نے دنیا میں پیدا کر دیئے ہیں اور خود جس طرح اپنے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس چکا ہے اب اس میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ پاکستان کو بھی ڈکٹیٹ کر سکے۔لے دے کے بھارت رہ گیا ہے جسکی نئی نئی محبت ہوئی ہے جو امریکہ کے حوالے سے بہت سی خوش فہمیاں رکھتا ہے۔ لیکن اسکو بھی جلد ہی احساس ہو جائیگا کہ وہ غلط وقت پر امریکہ کا دوست بنا ہے۔ سونے پر سہاگہ صدر ٹرمپ کا انتخاب اور انکی پالیسیاں۔ پوری دنیا گو مگو کی کیفیت میں ہے اور بہت جلد اہم ممالک کی خارجہ پالیسی میںامریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کا بگل بج جائے گا۔اس بات کا ادراک شاید امریکہ کو بھی ہو رہا ہے ۔ لیکن پاکستان سے محبت کی وجہ امریکہ کی اندرونی سیاست بھی ہے۔ کرسمس سے پہلے صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان سے اپنی فوجوں کا کچھ حصہ واپس بلا لیں اور اس کو کچھ ماہ بعد شروع ہونے والے پرائمریز انتخابات میں کیش کروائیں اور پھر 2020 ء میں اپنی بطور ریپبلکن صدر نامزدگی دوبارہ کرانے میں کامیاب ہو جائیں۔جس شدّومد کے ساتھ امریکی انتظامیہ اور صدر ٹرمپ افغان امن معاہدہ پر دستخط کی کوشش کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دو ماہ میں اس مقصد میںکامیاب ہو جائیں گے۔ افغانستان میں امن عمل کی کامیابی میں دیر لگی ہے تو اسکی وجہ امریکہ کے اس بارے میں واضح پالیسی بنانے میں ناکامی رہی ہے۔ صداوباما آکر فوجیں کم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن پھر بڑھانے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔صدر ٹرمپ آ کردنیا میں موجود امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہیں لیکن پھر ایک ہی سال میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا گرویدہ ہو جاتے ہیں اور اسے یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں کیا کرنا ہے ایک گول مول سا اعلان ہوتا ہے کہ ہم اپنی پالیسی اب منکشف نہیں کریں گے۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ امریکی پالیسی ساز سالہا سال سے دنیا کے مختلف خطوں میں دشمن گھڑنے اور پھر اس دشمن کے دنیا کے لئے بہت بڑاخطرہ قرار دینے اور پھر اسکی آڑ میں جنگ مسلط کرنے کے addict ہو گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کے حوالے سے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دریا کو کوزے میں بند کر دیاتھا۔ انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سرد جنگ کی دقیانوسی ذہنیت کو ترک کر دے۔اس بات کی سمجھ جب امریکی پالیسی سازوں کو آ گئی تو وہ مستقل بنیادوں پر دنیا میں امن کے قیام کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی کا سہرا باندھ سکتے ہیں۔