وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس سے ورچوئل خطاب کے دوران تنازع کشمیر کے تناظر میں پاک بھارت تعلقات،افغانستان کی صورتحال اور پاک امریکہ تعلقات کی عالمی امن کے لئے ضرورت پر بات کی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان کے عوام کو بیرونی امداد کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ ان کے لیے بہت اہم وقت ہے جسے ضائع نہیں کیا جاسکتا اور صرف اقوام متحدہ ہی عالمی برداری کو اس مقصد کے لیے متحرک کر سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے کردار کا حوالہ دے کر وزیر اعظم نے افغانستان میں معاملات کو عالمی برادری کے اشتراک سے چلانے کا اشارہ دیا ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کورونا کی وبا، کرپشن، اسلامو فوبیا، ماحولیاتی تبدیلی کے موضوعات پرجنرل اسمبلی کو پاکستان کے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی حکومت نے 'سمارٹ لاک ڈاؤن' کی حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے کورونا کے دوران معیشت کے پہیے کو نہ صرف رواںرکھا بلکہ انسانی زندگیوں کو بھی محفوظ رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ جنرل اسمبلی کو بتایا گیا کہ مضر گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔پاکستان کا ٹین بلین ٹری منصوبہ دنیا سے پذیرائی پا رہا ہے ۔اس منصوبے کے حوالے سے برطانوی وزیر اعظم پاکستانی ہم منصب کی تعریف اسی اجلاس میں کر چکے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی، معاشی بحران اور کوویڈ کی وبا کے تین طرفہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کو ایک جامع منصوبہ بندی کرنا ضروری ہوگی۔ بلاشبہ بد عنوانی نے پسماندہ اور کمزور ممالک کی ترقی کو متاثر کیا ہے ۔بدعنوان حکمران اور افسر شاہی ان ملکوں کے وسائل لوٹ کر ترقی یافتہ ریاستوں میں لے جاتے ہیں۔بد عنوانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی رقم دوسرے ممالک میں چلی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو کچھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈیا کے ساتھ کیا، وہی کچھ ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ ان کی بدعنوان اشرافیہ کر رہی ہے۔انھوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ ایک ایسا جامع قانونی فریم ورک تشکیل دیا جائے جس سے دولت کی غیر قانونی اڑان کو روکا جا سکے اور اس دولت کو واپس لوٹایا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے دنیا کو جس مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا اس سے بین الاقوامی سلامتی کئی طرح کے خطرات کا شکار ہو رہی ہے ۔امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں معصوم اور نہتے مسلمانوں پر حملے بڑھ رہے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان نے اسلاموفوبیا کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ حلقوں کیجانب سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا رہا ہے جس کے سبب انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا میں اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں ہے جہاں اسلامی تاریخ اور ورثے کو مٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کو موقع ملتا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے تنازع کشمیر سے متعلق حقائق پیش کرے۔اس سے پاکستان کا کشمیر کے بارے میں موقف ظاہر ہوتا ہے اور بھارتی فریب کاری کا انسداد کیا جاتا ہے ۔وزیر اعظم نے اس موقع کو غنیمت جانا اور بتایا کہ بھارتی کارروائیاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں اور ان قرار دادوں میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ اس مسئلہ کا حل صرف 'اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کروائے گئے ایک شفاف اور آزادانہ استصوابِ رائے' کے تحت ممکن ہے۔اس بین الا قوامی تنازع کو پانچ اگست دو ہزار انیس جیسے جابرانہ اقدامات سے طے کرنے کی کو شش مزید تنازعات کا باعث ہو سکتی ہے۔ افغانستان کی صورتحال پوری دنیا کے لئے اہم ہے ۔اپنی تقریر کے آخری حصے میں وزیر اعظم عمران خان نے تفصیلی طور پر افغانستان پر بات کی اور بتایا کہ امریکہ اور یورپ کے چند سیاستدان محض پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں جبکہ نائن الیون کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث اسی ہزار سے زیادہ پاکستانی جاں بحق ہوئے، ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور پاکستان سے 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ سنہ 80 کی دہائی میں افغان مجاہدین اور سوویت یونین کے مابین ہونے والی جنگ کے وقت امریکی صدر رونلڈ ریگن نے نہ صرف افغان مجاہدین کو وائٹ ہاؤس دعوت دی بلکہ ان کا موازنہ امریکہ کے بانیوں کے ساتھ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان خود کس طرح متاثر ہوا اس کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ نہ صرف امریکہ نے پاکستان کی حدودمیں '480 ڈرون حملے کیے' بلکہ '2004 اور 2014 کے درمیان 50 مختلف عسکری گروپ پاکستان کی ریاست پر حملہ آور تھے۔' پاکستان کو اس قدر مشکلات کا سامنا محض اس لیے ہوا کیونکہ گلوبل وار آن ٹیرر میں اس نے امریکی اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن تعریف کیے جانے کے بجائے پاکستان پر محض 'الزام تراشی' کی جاتی ہے۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں پاکستان کے بین الاقوامی مفادات کے حوالے سے ریاستی موقف ہی پیش نہیں کیا بلکہ حسب سابق مسلم امہ کی ترجمانی کی ہے ۔