وزیراعظم عمران خان کا دورہ وائٹ ہاؤس توقع سے کہیں زیادہ کامیاب نظر آیا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔نتائج کے اعتبار سے تو اس سرکاری دورے کی تفصیلات بعد میں سامنے آئیں گی لیکن تاحال یہی صدر ٹرمپ جنہوں نے پاکستان کی امداد بند کر دی تھی اور یہ کہتے تھے کہ پاکستان ہم سے امداد لیکر ان دہشتگردوں کی مدد کرتا ہے جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو مار رہے ہیں۔اب ان کے مطابق اسلام آباد ایک سچا دوست ہے۔ظاہر ہے اس تبدیلی کی وجہ امریکہ کی ضرورت ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن چاہتا ہے، وہاں پر صدر اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات اور مل جل کر ایسی حکومت بن جائے تاکہ امریکی فوج کا انخلا ممکن ہو جائے۔صدر ٹرمپ یقیناً چاہتے ہیں کہ 2020ء کے انتخابات سے پہلے پہلے ایسا ہو جو ان کیلئے بڑی کامیابی ہوگی۔صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کرانے کی پاکستان کی فرمائش پر صاد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ دو ہفتے قبل مودی بھی مجھ سے کہہ چکے ہیں کہ ہماری کشمیر پر بات چیت کرا دیں لیکن بھارت اب اس ضمن میں صدر ٹرمپ کو جھوٹا قرار دے رہا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے ٹرمپ سے ایسی کوئی بات نہیں کی۔بھارتی خارجہ امور کی وزارت کے ترجمان کے مطابق بھارت ہمیشہ کہتا ہے کہ پاکستان کی ساتھ دوطرفہ مذاکرات ہو سکتے ہیں اور ثالثی کا مخالف ہے کیونکر ایسی فرمائش کرے گا؟۔حقائق کچھ بھی ہوں جیسا کہ حریت کانفرنس کے لیڈر سید علی گیلانی نے عمران خان کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موقف پر شکریہ ادا کیا ہے۔خان صاحب کے اس دورے سے بھارت کو کافی تکلیف پہنچی ہے لیکن ہمیں بھی ٹرمپ سے جپھی ڈالنے کے مابعد زیادہ ڈونگرے نہیں برسانے چاہئیں۔واضح طور پر امریکہ اور پاکستان کے تعلقات دوطرفہ مفادات پر مبنی ہیں۔کیا پاکستان پرامن افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی خواہشات کی تکمیل کر سکتا ہے؟ ورنہ یہ کہ دہشت گرد گروپ پاکستان کی مدد سے افغانستان کارروائیاں کر رہے ہیں ’ڈور مور‘ کا مطالبہ زور پکڑتا جائے گا۔مزید برآں ایف اے ٹی ایف کی پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی تلوار اب تک سر پر لٹک رہی ہے جس کو اکتوبر میں اٹھایا نہ گیا تو پاکستان کی اکانومی کیلئے ایک بری خبر ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ واشنگٹن کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے وہاں بھی جلسہ عام کر ڈالا ۔عمو می طور پر پاکستانی سربراہان حکومت ومملکت جب امر یکہ جا تے ہیں تو سفارتخانے یا ہوٹل میں گنے چنے پاکستانیوں کو بلا کر خطاب کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔بیرون ملک سفارتخانے یاہائی کمیشن اپنے منظور نظر افراد یا تنظیموں کے ذریعے اجتماع کرواکے ہو ٹلزوغیرہ کا کرایہ سرکاری ذرائع سے ادا کر دیتے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مر تبہ ہے کہ کسی وزیر اعظم نے غیر ملکی سرزمین بالخصوص امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں کیپٹل ون ارینا میں اتنے بڑ ے اجتماع سے خطاب کیا جسے جلسہ عام بھی کہا جا سکتا ہے۔قبل ازیں 2014ء میں بھا رتی وزیراعظم نریندرمودی بھی اسی قسم کا جلسہ اپنے دورہ امریکہ کے موقع پر نیویارک میں میڈی سن سکوائر گارڈن میں کر چکے ہیں۔ عمران خان کے کامیاب جلسے کا سہرا پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ کے سر جا تا ہے۔ماضی میں ڈاکٹر صاحب کا محترمہ بے نظیر بھٹو کیساتھ گہرا تعلق رہا ہے، ان کی ماضی کی سیاست بھی پیپلزپارٹی کی ہے اور وہ سینیٹ آف پا کستان میں بھی اس جماعت کی نمائندگی کرچکے ہیں لیکن بعدازاں آصف زرداری نے اپنے دور صدارت میں انھیں زیادہ گھاس نہیں ڈالی جس سے وہ دلبرداشتہ ہو کر پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ جو سابق وزیر داخلہ اعتزاز احسن کے حوالے سے میر ے اچھے دوست ہیں کے اندازے کے مطابق کھچا کھچ بھرے ہوئے کیپٹل ون ارینامیں پند رہ سے بیس ہزار افراد موجود تھے، اس کے علاوہ باہر بھی ہزاروں افراد وہاں لگی ہوئی سکرینز پر خطاب سن رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب جو مرنجاں مرنج شخصیت ہیں ان کی قائدانہ اور انتظامی صلاحیتوں جن سے میں پہلے واقف نہیں تھا، کھل کرسامنے آئی ہیں ۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان برائے جنوبی ایشیا ایس ویلز نے جلسے سے متاثر ہو کر کہا کیپٹل ون ارینا میں پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کا اجتماع دیکھ کر خوشی ہوئی،امید ہے یہ متحرک کمیونٹی پاک امریکہ تعلقات کومضبوط بنانے اورمشکلات کے حل کیلئے مددکرسکتی ہے۔ عمران خان کی تقریر تحریک انصاف کے سربراہ کی تقریر تھی حالانکہ بطور وزیراعظم پاکستان غیر ملکی سرزمین پر اپوزیشن سے ہزار اختلاف کے باوجود انھیں اتنی سخت تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اصولی طور پر پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز اور مسائل کے حل پر بات کرنی چاہیے تھی۔ خان صاحب نے کہا کہ یہ کتنی ستم ظریفی ہے جب سیاسی رہنماؤں سے حساب مانگا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔نواز شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا جب عدالتیں انہیں سزا دیتی ہیں تو کہتے ہیں ’مجھے کیوں نکالا‘۔ میں جو نیا پاکستان بنا رہا ہوں اس میں وہ وہ سوال پوچھے جا رہے ہیں جن کاماضی میں کبھی جواب نہیں ملا ۔اصولی طور پر ان کی بات سے اختلاف نہیںکیا جا سکتا کہ میرٹ اور جواب دہی کے نظام کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی اور یقیناً یہ دونوں اوصاف ہماری ماضی کی لیڈر شپ میں کم ہی پا ئے گئے لیکن اس میں صرف سیاستدانوں کو مطعون کرنا بھی مبنی برانصاف نہیں ہوگا۔ پاکستان کے قیام کی نصف مدت میں جن جن طالع آزماؤں نے اقتدار پر قبضہ کیا انہوں نے ہمیشہ کرپشن کے خاتمے اور میرٹ کی بالادستی کا نعرہ لگایا لیکن اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ان اصولوں کی خوب دھجیاں اڑائیں اور انہی نام نہاد کرپٹ سیاستدانوں کو ساتھ ملایا جنہیں وہ کوستے ہوئے اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ ایک سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان ترقی کے حوالے سے بہت اچھا تھا، خان صاحب بھی یہی بات کہتے ہیںلیکن حقائق پرغور کیا جائے تو ایوب خان کے نام نہاد’عشرہ ترقی‘ میں پاکستان سے زیادہ بائیس خاندانوں نے ترقی کی اور اسی دور میں اقتدار کے ذریعے دولت کے حصول کو عین جائز قرار دیا گیا اور حقیقی معنوں میں اس دور میں مشرقی پاکستان کے ساتھ جو ناانصافیاںہوئیں وہ بالآخر ہماری ازلی دشمن بھارت کی پاکستان توڑنے کی مذموم کوششوں میں ممد ومعاون ثابت ہوئیں ۔ خان صاحب نے اصولی طورپر درست کہا کہ پاکستان میں ایک طرح کی بادشاہت رہی ہے یہاں پر ہر حکمران خواہ وہ سیاسی تھا یاغیرسیاسی، خود کو مغل اعظم ہی سمجھتا رہا۔ عام انتخابات کو گورکھ دھندہ سمجھتے ہوئے پا رلیمنٹ میںاکثریت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ایک مرتبہ اکثریت کے ذریعے اقتدار حاصل ہو جائے تواس کے بعد عوام، پارلیمنٹ اور باقی اداروں کو بھی بہت کم وقعت دی جاتی ہے۔ میاں نواز شریف کے دورمیں ان کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد جو نیب کے ہاتھوں پابند سلاسل ہیں عملی طور پر حکومت چلا رہے تھے۔ بڑے بڑے فیصلوں اور سودوں میں شفافیت کا یکسر فقدان تھا۔ مئی 2016ء میں میاں نواز شریف دل کا بائی پاس آپریشن کرانے کے لیے لندن گئے تھے،اس وقت کو ئی قائم مقام وزیر اعظم نہیں تھا ۔ شہباز شریف کو تو وفاق کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا تھا صرف پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواداور میاں صاحب کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحق ڈار ہی سب کچھ تھے۔ خان صاحب بجا طور پر چھوٹے وفود کے ہمراہ جانے کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن واشنگٹن ائیرپورٹ کی بس میں سوار ہو کر جانا بطور وزیر اعظم پاکستان ان کے منصب کی بے توقیری تھی۔اگر دانستہ ایسا کیا گیا تو یہ افسوسناک اور اگر غیر دانستہ طور پر ہوا تب بھی ٹھیک نہیں۔ مقام شکر ہے کہ پاکستان میں آزاد میڈیا کی بنا پر خان صاحب کے برسراقتدار آنے سے پہلے بھی میاں صاحب کے دور میں وفود سکڑنے شروع ہو گئے تھے۔ آ ہستہ آہستہ غیر ملکی دوروں میں وفود کو بھی لے جانے کا نظام بدلتا گیا لیکن پھر بھی قومی خزانے پر شا ہ خرچیاں برقرار رہیں۔ میڈیا کی آزادی ایک بہت بڑ ی نعمت ہے لیکن اب تحریک انصاف کی حکومت اس سے خائف رہتی ہے۔خان صاحب نے وائٹ ہاؤس میں سوال وجواب کی نشست کے دوران میڈیا پر قدغن لگانے کے حوالے سے سوال کو ایک لطیفہ کہہ کر رد کر دیالیکن یہ مذاق تو تواتر سے میڈیا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ چاہئے تو یہ کہ خان صاحب اگر واقعی قانون کی عمل داری اور جوابدہی چاہتے ہیںتو میڈیا کا پیچھا چھو ڑ دیں۔ میاں نواز شریف کو جب تک عدالتیں رہا نہیں کرتیں اپنی سزا کاٹنا پڑے گی۔ لیکن ’صفائی‘ کو اپوزیشن کاصفایا کرنے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر نیا پاکستان بننا ہے تو وہ خان صاحب جیسے مخلص لوگ ہی بنا سکتے ہیں کیونکہ ذاتی طور پر وہ کرپٹ نہیں ہیں لیکن نئے پاکستان میں جمہوریت اور جمہور کی خوشبو آنی چا ہیے۔ جیسا کہ انھوں نے کہا کہ جب احتساب ہو تا ہے تو ’جمہو ریت خطر ے میں ہے‘ کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ محض ایک خدشہ نہیں بلکہ اپوزیشن اور حکومت کی ما رکٹائی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ خان صاحب نے اپنے جلسے میں عوام کی پرجوش تالیوں میں یہ اعلان بھی کردیا کہ وہ واپس جا کر نواز شریف اور زرداری سے جیل میں لگے ائرکنڈیشنر اور ٹیلی ویژن واپس لیں گے اور یہ مذاق بھی اڑایا کہ وہ گھر کاکھانا ما نگتے ہیں ۔ امریکہ میںپاکستان کو نواز شریف کے علاوہ بھی بڑے بڑ ے مسا ئل کا سامنا ہے،خان صاحب کو اپنی بھرپور توجہ ان پر ہی مرکوز کرنا چاہئے تھی چہ جائیکہ ناقدین یہ کہیں کہ احتساب نہیں ذاتی انتقام لیا جا رہا ہے۔