چکبست نرائن نے عناصر میں ظہور ترتیب کو زندگی اور ان اجزا کے پریشان ہونے کو موت لکھا ہے۔انسان کی بد بختی کہ خدائی کے دعوئوں سے بڑھ کر قانوں قدرت میں مداخلت کی جسارت کی اور جینٹک انجینئرنگ کے ذریعے 2050ء تک موت پر قابو پانے کا دعویٰ کر بیٹھا ۔ نتیجہ !! آج ٹیکنالوجی کے خدا ہونے کے دعویدار پریشان ہیں کہ ایک نظر نہ آنے والے وائرس نے ان کی خدائی لمحوں میںتلپٹ کرکے رکھ دی ہے۔ جو ٹیکنالوجی اور طاقت کے زعم میں کمزور اقوام کے وسائل ہڑپنے کے لئے کسی جواز کے محتاج نہ تھے آج کرونا کے خوف سے خزانوں کے منہ کھولنے پر مجبور ہیں کہ موت کی دہشت ہے اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دنیا پر دہشت اور کمزور اقوام کے وسائل پر قبضہ کی ہوس نے امریکیوں کو دنیا کا سب سے بڑا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ تو دے دیا مگر جب موت خود امریکیوں پر منڈلانے لگی تو بھید کھلا دنیا بھر میں موت بانٹنے والوں نے اپنی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لئے بھی کچھ نہ کیا۔ نیو یارک کا میئر بلاسیو یہ کہنے پر مجبور ہے کہ دنیا کے معاشی دارالخلافہ کو دس دن بعد دوائوں اور وینٹی لیٹرز کے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کی اپنے شہریوں کی صحت بارے دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ ایک لاکھ افراد کے لیے ایک وینٹی لیٹر بھی میسر نہیں۔ کرونا نے چند ہفتوں میں ہی 35لاکھ امریکیوں کو بے روزگار کر دیا تو کانگریس نے امریکی تاریخ کے دو کھرب ڈالر کے سب سے بڑے ریلیف پیکیج کا اعلان کر دیا۔ امریکیوں کو گھروں میں بند رہنے کے لئے ماہانہ ایک ہزار ڈالر دیے جائیں گے کہ کرونا نے دنیا بھر کے انسانوں کو گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔نظیر اکبر آبادی نے شاید اسی صورت حال کے لئے کہا تھا: ملنا چھڑایا تم سے میرا رشک غیر نے کرتا ہے کوئی آپ جبر اختیار کب امریکیوں نے تو جبر اختیار کر لیا کیونکہ ان کے پاس وسائل تھے۔ مسئلہ تو ہمارا ہے کہ ہم کدھر جائیں؟وزیر اعظم آئے روز ٹی وی پر تسلی دینے کے لئے آتے ہیں ۔ان کی ٹیم عوام کے تحفظ کے لئے اقدامات گنوانے میں مصروف ہے ۔اقدامات کیا ہیں غیب سے مدد کا انتظار ہے۔ چین نے 5لاکھ ماسک اور ڈاکٹروں کے لئے مخصوص لباس بھجوائے تو بانٹے جا رہے ہیں ورنہ تو وزیر صحت ڈاکٹروں کو دھمکا رہی تھیں کہ ڈاکٹروں کو شرم نہیں آتی حفاظتی کٹ پہن کر گھومنا ہے کیا۔حکومت بھی کیا کرے حکمرانوں کی آنکھیں کان ارکان اسمبلی ہوتے ہیں تو عملدرآمد کے لئے بازو بیورو کریسی۔ دونوں کی صلاحیت اور کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ پیٹ سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔کرونا نے دنیا ہلا کر رکھ دی مگر ہماری حکومت اب بھی بضد ہے کہ: گر آرزو وصل نے بیمار کیا تو پرہیز کریں گے ‘پہ مداوا نہ کریں گے سیاسی قیادت کے ویژن پر قربان وزیر اعلیٰ نے کرونا سے لڑنے والوں کے لئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا بھی تو یہ کہ وائرس کا علاج کرنے والے میڈیکل سٹاف کو خصوصی الائونس دیا جائے گا۔ حکومت کے اس فیاضانہ فیصلے پر برادرم ڈاکٹر عنصر جوئیہ ‘جو عارف والا میں کرونا مریضوں کے علاج پر مامور کئے گئے ہیں‘ نے کہا ہے کہ حکومت مہربانی کرے جو رقم تنخواہوں میں اضافے پر خرچ کرنے جا رہی ہے اس سے ہمیں انفیکشن سے محفوظ رکھنے والے لباس اور ضروری آلات خرید کر دیدے تاکہ مریض اور ڈاکٹر اس وائرس کو مزید پھیلانے کا موجب نہ بن سکیں۔ سیاسی اشرافیہ بھی کیا کرے اسے مشورے دینے والی افسر شاہی کے منہ کو خون لگ چکا کہ ہر بحران میں مال بنانے کے لئے حکمرانوں کو گمراہ کرنا ہی اس کا کام رہ گیا ہے اور یہ کام مہارت سے کر رہی ہے ۔ ایک اینکر وزیر اعظم کو یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ حضور آپ کو کیا ہو گیا آپ تو زمین سے جڑے ہوئے تھے زمینی حقائق سے آگاہ تھے۔ یہ کس کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔سچ ہی تو کہا کہ وزیر اعظم اسی بریفنگ میں بتا رہے تھے کہ امریکہ کے پاس آٹھ ہزار وینٹی لیٹر ہیں پاکستان کے 1600۔ وسائل نہیں ہیں غریب ملک ہیں کیا کریں ،ایک کروڑ کا وینٹی لیٹر ہے۔ پاکستان معاشی بحران میں کتنے خرید سکتا ہے یہ افسر شاہی کی عینک ہی ہے جو وزیر اعظم کو وینٹی لیٹر کی قیمت ایک کروڑ دکھا رہی ہے۔ ورنہ برطانیہ میں وینٹی لیٹر کی قیمت 5ہزار پائونڈ اور امریکہ میں سات ہزار ڈالر ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان میں میڈیکل آلات سپلائی کرنے والی کمپنی کی ویب سائٹ پر وینٹی لیٹر کی زیادہ سے زیادہ قیمت 15لاکھ درج ہے۔ یہی نہیں کہ 2016-18ء میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف 13ہزار ڈالر میں وینٹی لیٹر خرید چکے ہیں۔ وزیر اعظم جس افسر شاہی کی عینک سے زمینی حقائق دیکھ رہے ہیں اس کو اپنے پیٹ سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا یہاں تک کہ یہ لاشوں کے بھی دام کھرے کر لیتی ہے۔ عالی دماغوں کے لالچ کا یہ عالم ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں یہ مال بنانے کی فکر میں ہیں کہ بقول تنویر دہلوی: دور ساقی میں الٹی بہی گنگا ہر روز جب دیا جام مئے ناب تو اغیاروں کو کرونا کے خوف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری افسر شاہی نے برطانیہ کی کمپنی ڈائسن کو 10ہزار وینٹی لیٹر کا مشروط آرڈر دیا ہے مشروط اس لئے کہ کمپنی کے پاس ویکیوم کلینر اور ہیرڈرائیر بنانے کا تجربہ ہے، وینٹی لیٹر بنانے کا نہیں! وزیر اعظم بیورو کریسی کی عینک اتاریں تو ان کو نظر آئے گا کہ ان کی اپنی لمز یونیورسٹی کے ڈاکٹر فراست منیر نے 2018ء میں وینٹی لیٹر بنایا تھا جس کے ٹرائل کے لئے سنٹرل میڈیکل کالجز کی ڈاکٹرسعدیہ ناصر کو میڈیکل کنسلٹنٹ مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کراچی کے بائیو میڈیکل انجینئر ڈاکٹر بلال صدیقی ایئر فورس کے تعاون سے ایک ایسا وینٹی لیٹر بنا چکے ہیں جو بیک وقت چار مریضوں کو مصنوعی تنفس کی سہولت فراہم کر سکتا ہے اور تو اور امریکہ میں پاکستانیوں نے وینٹی لیٹر بنایا ہے جو محض دو ہزار ڈالر میں میسر ہوگا۔ مگر ہمارے وزیر اعظم ‘بیورو کریسی ہے کہ اسے وینٹی لیٹر خریدنے کے لئے ڈائسن کمپنی ہی ملی ۔افسر شاہی کا رویہ عوام دوستی ہے یا دشمنی۔ فیصلہ وزیر اعظم خود کریں مگر ایسا افسر شاہی کی عینک اتارے بغیر ممکن نہ ہو گا۔ بقول شاعر: دشمنی کے لئے مخصوص ہے جو طرز عمل دوستی میں بھی ممکن ہے مجھے معلوم نہ تھا