اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے مبینہ طور پرایک سیاسی جماعت کے وکلا ونگ کی تقریب پر ریاست کے وسائل کے استعمال اور اس میں وزیر اعظم کی شرکت کاازخود نوٹس لے کر وزیر اعظم کو نوٹس جاری کردیا ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں2 رکنی بینچ نے جائیداد کے ایک تنازع سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وکیل رفاقت حسین شاہ کی نشاندہی پر مبینہ طور پر ریاست کے وسائل کے غلط استعمال کا نوٹس لیا اور سوال اٹھایا کہ کیا ایک مخصوص سیاسی جماعت کے وکلا کی تقریب میں وزیر اعظم کی شرکت اور اس پر سرکاری وسائل کے استعمال سے وزیر اعظم کے حلف کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟۔عدالت نے معاملے میں اٹارنی جنرل ، وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل اور صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کو قانونی معاونت کیلئے طلب کرلیا جبکہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو بھی نوٹس جاری کیا اور تقریب کے اخرجات کی تفصیلات جاننے کیلئے انچارج کنونشن سنٹر اور متعلقہ وزارتوں کو نوٹسز جاری کرکے معاملے پر بینچ کی تشکیل کیلئے کیس چیف جسٹس کو بھیج دیا۔دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریما رکس دیئے کہ وزیر اعظم کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوتا ہے ، بادی النظر میں یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کررہے ہیں؟، بظاہر کنونشن سینٹر میں وزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں شرکت کی،وزیراعظم کی کسی خاص گروپ کے ساتھ لائن نہیں ہوسکتی؟۔جائیداد کے تنازع سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو عدالت کے استفسار پر وکیل رفاقت حسین شاہ نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل ایک سیاسی جماعت کے وکلا ونگ کی تقریب میں شریک ہوئے لیکن عدالت کے نوٹس پر پیش نہیں ہوئے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل تو ایک آئینی عہدہ ہے کیا ایک آئینی عہدیدار مخصوص سیاسی تقریب میں شریک ہوسکتاہے ؟ جس طرح جج کا عہدہ آئینی ہے کیا جج ایسا کرسکتا ہے ؟۔وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم بھی شریک ہوئے جس پر جسٹس قاضی نے وکیل سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کا مطلب ہے کہ وزیراعظم نے وکلاء کی تقریب میں شرکت کرکے کسی ایک گروپ کی حمایت کی؟۔فاضل جج نے کہا کہ وزیر اعظم ایک مخصوص گروپ کا نہیں ملک کے ہر فرد کا وزیر اعظم ہے ۔جسٹس قاضی نے سوال اٹھایا کہ کیاوزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں کنونشن سینٹر کا استعمال کیا ،انچارج کنونشن سینٹر بتائیں کہ کیا اس تقریب کے اخراجات ادا کیے گئے ؟۔ عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک ونگ ہے ،آئین کا آرٹیکل 17 جلسے جلوس کی اجازت دیتا ہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا وزیراعظم کو رتبہ بہت بڑا ہے ،یہ تقریب کسی پرائیوٹ ہوٹل میں ہوتی تو اور بات تھی،تقریب کیلئے ٹیکس دہندگا ن کے وینیو کا استعمال کیا گیا۔جسٹس قاضی نے کہا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ہیں لیکن ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ایسی سرگرمیوں میں شرکت ہوئے جن کا اس سے تعلق نہیں۔عدالت نے سوال اٹھایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بننے کے بعد وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں؟۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور کنونشن سینٹر میں ہونے والے سیاسی اجتماع میں بیٹھے رہے ، ایڈووکیٹ جنرل کسی سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے صوبے کا ہوتا ہے ۔جسٹس فائز عیسی نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا کیا وزیراعظم کا اقدام غلط تھا یا درست؟ ،جس کے جواب میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کے معاملے پر قانونی رائے نہیں دے سکتے ،وہ صوبے کے وکیل ہے ۔جسٹس قاضی نے کہا کیا یہ مشکل سوال ہے ؟قرآن کہتا ہے گواہی والدین کیخلاف بھی دینی پڑی تو دیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے کہا کہ ایک وجہ سے جواب دینے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوں، میری تقرری سیاسی ہے نہ ہی کسی تقریب میں شریک ہوا۔واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 9 اکتوبر کو کنونشن سینٹر اسلام آباد میں انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت کی تھی۔