وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ مبارک۔ گورنر ہائوسز کے بند دروازوں کو عوام کے لئے کھول دینے کا اعلان اور پھر اس پر عمل بہت ہی خوب۔ مدینہ منورہ کی مقدس زمین پر ننگے پائوں چلنا قابل تحسین، غریب طبقے کو اوپر اٹھا کر ان کی ناگفتہ بہ حالت کو سنوارنے کی نیت لائق تکریم۔ لیکن ایسا کیا ہے کہ سو دن کے مکمل ہوتے ہی منقسم اپوزیشن حکومت گرانے کے لئے متحد ہو گئی۔ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو کیا اس پہ سنجیدگی سے سوچنا نہیں چاہیے؟کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاسی تدبر اور حکمت عملی سے بالکل ہی محروم ہو گئے ہیں یا شاید یہ اوصاف ان میں کبھی تھے ہی نہیں۔ کیا حکومت کبھی صرف اچھے ارادوں اور نیک نیتی سے کامیابی سے چلائی جا سکتی ہے؟ یا اس کے لئے عقل و تدبر‘ معروضی حقائق کا ادراک‘ صحیح سمت میں پیش قدمی‘قوت برداشت‘ عفو و درگزر ایسی خوبیوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو مزاحمت اور تصادم کی فضا پیدا کرنے کے بجائے ہم آہنگی اور خیر خواہی کے جذبات حکومت کے حق میں پیدا کر سکے۔ جو حکومت نجات دہندہ بننے کے دعوے کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے‘ اس پر کتنی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اس میں کتنی لچک اور سوجھ بوجھ ہونی چاہیے‘ اس کا نہ تو کوئی احساس ہے اور نہ اس کا کوئی مظاہرہ کیا گیا ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی عوام کے لئے تیسرا آپشن بن کر سامنے آئی تھی لیکن سو دنوں کے اندر اندر معیشت کی زبوں حالی‘ مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ‘ اپوزیشن سے تصادم اور توہین آمیز رویہ روا رکھنے کی پالیسی کے نتیجے میں اپوزیشن کے جارحانہ ردعمل سے ایسے اندیشے جنم لے رہے ہیں کہ اگر یہ تیسرا آپشن بھی جلد ناکامی سے ہمکنار ہوا تو قوم کس کا منہ دیکھے اور کس سے امیدیں وابستہ کرے گی؟ یہ کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ سارے ڈاکو اور چور ایک باکردار و دیانت دار حکومت و قیادت کو ناکام بنانے کے لئے اکٹھے ہو گئے۔ اگر اس حکومت میں اور خود حکومتی پارٹی میں سارے گنگا نہائے ہوئے ہوتے تب بھی بات سمجھ میں آتی تھی لیکن جب آپ کی پارٹی میں بھی وہ عناصر شامل ہیں جن کے دامن پہلے سے داغدار ہیں تو تقویٰ اور پرہیز گاری کا دعویٰ کیسا؟ دیانت و امانت بلا شبہ اچھی خوبیاں ہیں لیکن اس کا دعویٰ رکھنا کوئی ایسی خوبی نہیں جس پر اکڑا جائے۔ بدقسمتی سے کپتان وزیر اعظم کے اندر ایک ایسی اکڑ پیدا ہو گئی ہے جو ان کی حکومت کے کاموں کو بے برکت بنا رہی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ حکومت کے ترجمان اور وزراء کا لب و لہجہ اور زبان و بیان بھی افسوس ناک حد تک پست ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت اور اس کے وزیر اعلیٰ کی بابت ارادے اور پالیسی بھی غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہے۔ ایک نئی حکومت کو حکومتی معاملات کامیابی سے چلانے کے لئے جس جگرے کی ضرورت ہوتی ہے اور جیسی اعلیٰ ظرفی اور تحمل چاہیے۔ بدقسمتی سے یہ حکومت اس سے محروم ہے۔ ہم نے ان ہی کالموں میں کپتان اور ان کی پارٹی سے بہت نیک امیدیں وابستہ کیں اور یہاں تک لکھا کہ نومنتخب حکومت ضرور پاکستان کو ایک نیا اور مستحکم پاکستان بنا کر رہے گی۔ لیکن ہمیں یہ لکھتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ ان امیدوں پر پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔ ناتجربہ کاری کا مداوا ہو سکتا ہے۔ لیکن نادانی اور حماقت کی چارہ گری مشکل ہے۔ اپوزیشن کی جن جماعتوں نے اتحاد کیا ہے۔ ان سے ہمیں کوئی اچھی امید نہیں۔ لیکن ایسی مایوسی بھی نہیں کہ اگر حکومتی رویہ صلح و صفائی کا ہوتا تو انہیں رام کرنا کوئی ایسا مشکل نہ تھا۔ سیاست معروضی حقائق کے ادراک اور حقیقت پسندی کے دائرے میں رہ کر اپنا طرز عمل متعین کرنے اور پالیسی وضع کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ سیاست اور کرکٹ کے کھیل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کرکٹ مخالف ٹیم کو شکست سے ہمکنار کر کے میچ جیتنے کے لئے اسٹریٹجی وضع کرنے پر زور دیتی ہے۔ کپتان وزیر اعظم نے عمر کا بڑا حصہ کپتانی میں گزار کر شاید یہی سیکھا ہے۔ انہیں چاہیے کہ سیاست کے دائو پیج اگر انہیں نہ آتے ہوں تو ایسے مشیروں سے مشاورت کریں جنہیں اس فن میں مہارت حاصل ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلسل و متواتر کامیابیوں نے ان کے اندر یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ کسی مشاورت کی ضرورت نہیں۔ قوم کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے اپنی عقل و بصیرت ہی بہت کافی ہے۔ یہ سیلف میڈ لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ ان میں خود مرکزیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اپنے آگے کسی اور کو خاطر میں لاتے ہی نہیں۔ ملک کو جن بحرانوں کا سامنا ہے۔ اس کا احساس اور اندازہ ہر ذی شعور کو ہے۔ ملک اس وقت کسی تصادم اور سیاسی رسّہ کشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ بحران اس بات کے متقاضی ہیں کہ اگر چوروں اور ڈاکوئوں سے بھی تعاون طلب کرنا پڑے تو کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چہ جائیکہ ان ’’چوروں‘‘اور ’’ڈاکوئوں‘‘ کو عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت بھی حاصل ہو۔ سیاست دان کا انداز تھانیدار کا انداز بن جائے تو نتائج معلوم۔ اپوزیشن کچھ بھی کرنے اور کچھ بھی کہنے میں آزاد ہوتی ہے۔ جب تک موجودہ وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر تھے‘ کسی روک ٹوک کے بغیر وہ سب کچھ کہتے اور دعوے کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں انہیں بار بار یوٹرن لینا پڑا لیکن حکومتی ذمہ داریوں کا بوجھ کاندھوں پہ اٹھانے کے بعد انہیں اپنے طرز عمل اور طرز فکر دونوں کو بدلنے پر غور کرنا چاہیے۔ہم یہ بات پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اس دکھیارے ملک پہ شرابی بھی برسر اقتدار آئے اور نمازی بھی۔ لیکن عوام کے دکھوں کا مداوا نہ ہوا۔ نئی حکومت مدینہ کی ریاست کو اپنا ماڈل بنا کر برسر اقتدار آئی ہے تو وہ کیوں بھولتی ہے کہ رسول خداؐ نے مدینہ کی ریاست میں یہودی قبائل سے میثاق مدینہ کی صورت میں معاہدہ کیا تھا اور انہیں مسلمانوں کے برابر درجہ دیا تھا۔ اسی طرح صلح حدیبیہ میں مشرکوں سے ایسا معاہدہ کیا تھا جس پہ صحابہ کرامؓ بھی مضطرب ہوئے کہ بہ ظاہر یہ شکست اور احساس شکست کا معاہدہ محسوس ہوا لیکن بعد میں اس کے جو بابرکت نتائج سامنے آئے اسے سب نے تسلیم کیا۔لہٰذا موجودہ حکومت کو بھی تسلیم و رضا کے انداز میں اپوزیشن سے معاملہ نیک نیتی سے کرنا چاہیے اور نتائج قدرت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ محاذ آرائی اور تصادم کبھی اچھے نتائج پیدا نہیں کرتے۔ انڈر گریجویٹ قسم کی بیان بازیاں فاصلے پیدا کرتے اور دلوں کو کبیرہ خاطر کرتے ہیں۔ اس سے گریز اور پرہیز ہی اعلیٰ اخلاق اور سیاست کا تقاضا ہے۔ ہم توقع کر سکتے ہیں کہ یہ تازہ ’’جھٹکا‘‘ وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو سنجیدگی سے اپنی اسٹریٹجی پر غورو خوض کی توفیق دے گا۔ ورنہ اس کے منفی نتائج کے لئے حکومت اور قوم دونوں کو تیار رہنا چاہیے۔