نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں کی دوڑ پیٹ سے شروع ہوتی ہے اور پیٹ پر ہی ختم۔ رہے لیڈر تو اگلی نسل کا سوچنا اور دیوار کے پار دیکھنا تو دور کی بات انہیں اپنے ناک تلے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ باقی رہی سوچنے کی بات تو یہ کام وطن عزیز میں بیورو کریسی نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ جس کی سوچ یہ ہے کہ سیاستدان نااہل مگر جمہوری نظام کی مجبوری ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نااہل سیاستدانوں کو کرپٹ بھی ٹھہرا دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاستدانوں کو اس فن میں طاق کرنے والی سہولت کار بیورو کریسی ہی ہے۔ سیاستدان بنانے اور حکومت گرانے کی صلاحیت نے ہماری افسر شاہی کو اس قدر مضبوط اور منہ زور کر دیا ہے کہ بقول جون ایلیا: علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جائوں وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے!! تحریک انصاف نظام بدلنے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی۔ عمران خان کی تبدیلی کے جنوں کے غبار ے سے بیورو کریسی نے یوں ہوا نکالی کہ وزیر اعظم پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کے لئے کے پی کے سے جو آئی جی لائے تھے کچھ ہی دنوں بعد اس نے بھی عزت بچا کر گھر جانے میں عافیت جانی۔ اس کے بعد عمران خان اور ان کے وسیم اکرم پلس پنجاب میں 4آئی جی تبدیل کرکے تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ عمران کے انتخاب عثمان بزدار کے شریف اور کرپٹ نہ ہونے پر کوئی کلام نہیں۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا شرافت اور ایمانداری سے نظام بدلنا بھی ممکن ہے؟عثمان بزدار نے حکومت سنبھالنے کے بعد بلا شبہ اپنے کم گو اور صاف شفاف ہونے کے تاثر کو پختہ کیا لیکن جب معاملہ کارکردگی اور کمانڈ کا آیا تو موصوف نے اپنے آپ کو با اختیار ثابت کرنے کے لئے تبادلوں کا دفتر کھول دیا۔ پنجاب میں ڈیڑھ برس میں چار آئی جی ہی تبدیل نہیں ہوئے بلکہ ہر مہینے سینکڑوں افسروں کے تبادلوں کی فہرست بھی جاری ہونے لگی۔ پھر کیا ہوا؟!! پنجاب کی بیورو کریسی نے وزیر اعلیٰ کے اس شوق کو ہی اپنا ہتھیار بنا لیا اور صوبے میں کام کے بجائے تبادلے تبادلے کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔ حالانکہ عوام وسیم اکرم پلس سے افسران کی تبدیلی نہیں نظام کی تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسی تبدیلی جس سے عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں آئیں۔ پنجاب کی دس کروڑ آبادی میں سے 3کروڑ سے زیادہ انسان لاہور سمیت چار اضلاع میں بستے ہیں جہاں ترقیاتی کام کروانے کی ذمہ داری ایل ڈی اے کی ہے۔ اس طرح بزدار حکومت کی کارکردگی مانپنے کے لئے ایل ڈی اے کو پیمانہ بنایا جا سکتا ہے یہ بات ناصرف تحریک انصاف بلکہ اپوزیشن اور وزیر اعلیٰ کے اردگرد مخالفین بھی جانتے ہیں جن کی کوشش ہے کہ یہ ادارہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ اسی لئے ایل ڈی اے بھی مخالفین کی سیاست کا محور و مرکز بنا ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ موصوف اپنے ڈیڑھ برس کے اقتدار میں ایل ڈی اے کے 3ڈی جی تبدیل کر چکے ہیں۔ بزدار حکومت نے پہلا تبادلہ آمنہ عمران کا کیا اور ایل ڈی اے کو تحریک انصاف کی کارکردگی کا آئینہ بنانے کے لئے عثمان معظم کو ڈی جی ایل ڈی اے تعینات کیا۔ عثمان معظم 28مئی کو عہدہ سنبھالتے ہی ادارہ میں انقلابی تبدیلیوں میں جت گئے۔ ایل ڈی اے کے بارے میں عام تاثر تھا کہ یہ ادارہ لینڈ مافیا کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا ہے اور نجی سوسائٹیوں کے مالکان ایل ڈی اے کی لیگل ٹیم سے مل کر شہر بالخصوص ایل ڈی اے کی سکیموں میں ترقیاتی کام نہیں ہونے دیتے۔ عثمان معظم نے آتے ہی سب سے پہلے ایل ڈی اے کی لیگل ٹیم کو فارغ کیا اور نئے وکلاء کو ٹاسک دیا کہ محکمہ پر سے غیر ضروری مقدمات کابوجھ کم کریں، اس کے علاوہ ڈی جی نیب کی مدد حاصل کی اور پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیوں سے تنازعات حل کئے۔ صرف ایل ڈی اے کی ایونیو ون سوسائٹی میں 9پرائیویٹ ہائوسنگ سکیموں سے معاملات طے کر کے سرکاری سکیم میں ترقیاتی کاموں کی راہ ہموار کی۔ اس کے علاوہ اورنج ٹرین اور باب لاہور کی تعمیر میں دن رات ایک کئے رکھا۔ ممکن تھا کہ عثمان بزدار کی حکومت کی کارکردگی کو ایل ڈی اے کے ترقیاتی کاموں کے آئینہ میں دیکھا جانے لگتامگر شاید داغ دہلوی نے ایسے ہی موقع کے لئے کہا تھا کہ: دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا عثمان معظم کو 6ماہ 2دن بعد تبدیل کر کے ان کی جگہ سید سمیر کو ایل ڈی اے کا ڈی جی لگایا گیا۔ سمیر سید سمجھدار اور فرض شناس افسر نکلے انہوں نے پہلے دن سے ہی وہاں سے کام شروع کیا جہاں سے عثمان معظم چھوڑ کر گئے تھے۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی پیروی کے علاوہ سمیر سید نے ایل ڈی اے ایونیو ون سکیم میں ترقیاتی کاموں کے لئے 60کروڑ کی رقم بجٹ میں رکھی ۔ ایل ڈی اے کی دوسری سکیم ایل ڈی اے سٹی میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز کر کے عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی۔ پھر نادیدہ قوتیں ایک بار پھر فعال ہوئیں اور سمیر سید کو محض 3ماہ بعد تبدیل کروا کر احمد عزیز تارڑ کو ڈی جی لگا دیا گیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ڈی جی کتنے دن ٹکتے ہیں اگر مافیا سے سمجھوتہ کیا تو ٹھیک ورنہ تبادلے کی اگلی فہرست میں ان کا نام ہو گا۔ عثمان بزدار کے ایل ڈی اے پر پے درپے حملے ممکن ہے نیک نیتی پر مبنی ہوں۔ اگر اسی طرح تبادلے ہوتے رہے اور افسروں کو ٹاسک دے کر کام کا موقع نہ دیا جاتا رہا تو پھر عثمان بزدار بھی خلیل قدوائی کی طرح کہتے پھریں گے: ایک زندگی عمل کے لئے بھی نصیب ہو یہ زندگی تو نیک ارادوں میںکٹ گئی اب یہ سوچنا وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا کام ہے کہ یہ جو تبادلہ تبادلہ کھیلا جا رہا ہے یہ ان کی سیاسی حکمت عملی ہے یا ان کے خلاف کوئی سازش ہے اگر سازش ہے تو سازش کون کر رہا ہے۔ بظاہر تو اسعد بدایونی کا کہنا سچ محسوس ہوتا ہے: غیروں کو کیا پڑی تھی رسوا کریں مجھے ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے!