احباب کو مبارک ہو کہ محرومیوں‘ تلخیوں‘ پریشانیوں اور مصیبتوں سے بھرا سال ختم ہونے میں صرف ایک دن رہ گیا اور احباب کو سنائونی ہو کہ اس سے بھی بڑھ کر اور زیادہ ’’بھرپور‘‘ سال طلوع ہونے میں بھی کچھ زیادہ وقت نہیں رہا۔ صرف ایک دن اور ان دیکھی بلائوں سے بھرا سال سر پر ہو گا۔جی ہاں‘ اسے نئے سال کی پیشگی مبارکباد کہہ لیں جس کے بارے میں ماہرین بتا رہے ہیں کہ اس میں کوئی مزید 80لاکھ پاکستانی شہری خط غربت سے نیچے جا پڑیں گے اور مزید دس لاکھ کے بے روزگار ہونے کی قوی امید ہے۔ وزیر اعظم کی زبان میں گویا یہ سال ترقی کا نہیں‘ ازحد ترقی کا سال ہو گا۔ انہوں نے فرمایا‘ مشکل برس گزر گیا۔ امید نہیں یقینا نیا سال مشکل نہیں ہو گا‘ ہاں مشکل تر ہو گا۔ مشکل اور مشکل تر کا فرق احباب انصاف اچھی طرح جانتے ہیں۔ حکومت نے نئے سال کے پیشگی تحفے یا جاتے سال کے الوداعی تحفے بجلی کی قیمت لگ بھگ ڈیڑھ پونے دو روپے یونٹ اور گیس تین گنا مہنگی کر کے دے دیے۔نئے سال کو مشکل تر بنانے کے لئے یہی دو تحفے کافی تھے لیکن خبر آئی ہے کہ نئے سال کا تحفہ الگ سے تیار ہے جو فروری میں منی بجٹ کی شکل میں عوام کو تھمایا جائے گا۔ اس کے تحت عوام کو 150ارب کے اضافی ٹیکس دینا ہوں گے۔ بجلی اور گیس جتنی مہنگی کی جا چکی ہے‘ اسے سستا سمجھ کر مزید گراں کیا جائے گا۔ منی بجٹ میں سرمایہ دار طبقات کو شاندار مراعات دینے کی خبریں ہیں۔ بنکوں کے منافعے پر ٹیکس 30فیصد سے کم کر کے 20فیصد کر دیا جائے گا اور کچھ دیگر مراعات بھی ہیں یعنی ریلیف کا نالہ امیروں کے لئے تکلیف کا پرنالہ غریب کے سر پر مزید کھل کر برسے گا۔ ٭٭٭٭٭ معاشی استحکام بھی نئے برس میں مزید مستحکم ہو گا۔ آئی ایم ایف کی جائزہ رپورٹ جو دسمبر کے آخری ہفتے میں آئی‘ بتایا گیا ہے کہ شرح نمو متاثر ہو گی یعنی مزید کم ہو گی۔ خسارے بڑھیں گے اور مہنگائی بھی۔ استحکام کے لئے اور کیا چاہیے۔ چنانچہ وزیر اعظم ایک بار پھر اپنی معاشی ٹیم کی ان تھک محنت کو خراج تحسین پیش کرتے نظر آئیں گے بلکہ بار بار نظر آئیں گے۔ سال کے آخر تک معاشی استحکام کی منزلوں کا ٹھکانہ کیا ہو گا‘ مت پوچھیے۔ ٭٭٭٭٭ معاشی استحکام کی شانداری میں بجلی اور گیس کے مہنگا ہونے کا کردار اپنی جگہ خراج تحسین کا مستحق ہو گا۔ کچھ ملیں بند ہوں گی‘ کچھ کو گھاٹا ہو گا‘ دونوں صورتوں میں بے روزگاری غربت اور مہنگائی بڑھے گی۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود کوئی یہ کہے کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا تو اسے فاتر العقل کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کی ’’کامیابی‘‘ کا راز یہ ہے کہ دل کی بات زباں پر نہیں لاتے۔ دشمن کو دھوکے میں رکھتے ہیں‘ ضیاء الحق کی روایات کے مطابق سجی دکھا کر کبھی مارتے ہیں۔ زباں پر یہ ہو گا‘ قرضہ نہیں لوں گا‘ دل میں ہو گا‘ سب سے زیادہ قرضے لوں گا۔ زبان پر یہ تھا‘ پروٹوکول نہیں لوں گا‘ دل میں یہ کہ ہمارے پروٹوکول کو دنیا دیکھے گی اور عش عش کرے گی۔ زبان سے اعلان کیا‘ سب سے چھوٹی کابینہ بنائوں گا کہ بڑی کابینہ رکھنا کرپشن ہے‘ دل میں یہ تھا کہ تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنا کر دشمن کے سینے پر مونگ دلوں گا۔ زبان سے فرمان جاری ہوا‘ چائنا ماڈل لائوں گا‘ ترکی ماڈل لائوں گا‘ کوریا ملائشیا۔ ماڈل لائوں گا‘ سکینڈے نیویا ماڈل لائوں گا۔ دل میں یہ تھا کہ بچُّو‘ صومالیہ بنا کر نہ دکھایا تو کہنا۔ سو صومالیہ بن رہا ہے بلکہ اس سے بھی کچھ نہ آگے ہی کی چیز۔ یو این ای ڈی کی رپورٹ ملاحظہ فرما لیجیے‘ ’’ان تھک محنت‘‘ کے نتیجے میں غربت کے اعتبار سے پاکستان کا نمبر 152ہو گیا۔ ٭٭٭٭٭ اپوزیشن نے کہا ہے کہ وہ نیب ترمیمی آرڈی ننس کو مسترد کرتی ہے جو وزیر اعظم اپنے دوستوں اور حکومت کے وزیروں کو بچانے لائے ہیں۔ یہ آرڈی ننس اب نافذ العمل ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم نے تاجروں کے اجلاس میں کہا تھا کہ اس کے نافذ ہونے سے ان کے دوست مقدمات سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اپوزیشن کو دوست نوازی پر کیوں اعتراض ہے۔ سعدی نے فرمایا تھا ع دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست خاں صاحب حق دوستی ادا کر رہے ہیں۔ نیب سے گرچہ ان کے احباب کو خطرہ نہیں‘ پھر بھی حفظ ماتقدم میں کیا حرج ہے۔ ابھی چند ہی ماہ پہلے وزیر اعظم نے اپنے ایک’’عارف‘‘ دوست سے حق دوستی ادا کیا تھا۔ سنا ہے کوئی 85ارب کے گھپلے کا معاملہ تھا۔ ایف آئی اے میں کچھ پخت ویز ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم نے فوراً انتباہ فرمایا’ خبردار‘ اس نے ہماری پارٹی کی الیکشن فنڈنگ کی ہے۔یحییٰ خاں کے محل میں اداکارہ ترانہ گئی۔ واپسی پر چوکیدار نے سلوٹ کیا۔ ترانہ نے کہا ‘ گئی تھی تو سلیوٹ نہیں مارا‘ اب کیوں مارا۔ بولا‘ اب آپ قومی ترانہ ہو گئی ہو۔وزیر اعظم کے جملہ احباب سارے کے سارے قومی ترانے ہو گئے ہیں۔ نیب ہو یا ایف آئی‘ نام سن کر ہی کھڑے ہو جاتے اور سلیوٹ مارتے ہیں۔ ترمیمی آرڈی ننس سے چیئرمین نیب کا کام بھی آسان ہو گیا۔ پہلے دبائو آتا تھا کہ ادھر ادھر کے لوگ بھی پکڑو۔ صرف مسلم لیگ کے ہی کیوں پکڑتے ہو۔ اب دبائو ختم ہوا۔ بیورو کریٹس‘ تاجر بزنس مین‘ صنعت کار‘ بی آر ٹی بی۔ مالم جبہ کیس سبھی فارغ۔ موصوف پوری یکسوئی سے مسلم لیگ کے خلاف جہاد جاری رکھ سکتے ہیں۔ چاہے تو بی آر ٹی بی کا کیس بھی احسن اقبال پر ڈال دیں اور مالم جبہ کا عطاء اللہ تارڑ پر۔ رانا ثنا منشیات کیس سے بچ نکلے‘ چیئر مین نیب سے کیسے بچیں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم صاحب کمال ہیں۔ لاموجود کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے‘ خبرہے کہ انہوں نے کابینہ کا اجلاس کیا اور وزیروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔جو شے موجود ہی نہ ہو‘ اس کا جائزہ خاں صاحب جیسے اصحاب معرفت ہی لے سکتے ہیں۔