وَزیراعظم عمران خان نے اِسی ہفتے روس کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ اِتفاق سے یہ دورہ اِیک اَیسے وقت میں کیا گیا ہے جب روس اور یوکرائن کے مابین جاری کشمکش باقاعدہ ایک جنگ میں تبدیل ہوگئی،جب روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرائن کے مشرق میں ڈونیٹسک اور لوگانسک کے دو الگ ہونے والے علاقوں کی آزادی کو تسلیم کرنے اور وہاں روسی فوجی بھیجنے کے فیصلہ کیا،جس سے امریکہ اور یورپی اِتحادیوں اور روس کے مابین بھی صورتحال غیر مستحکم ہوگئی، جس کے نتیجے میں امریکہ اور اِتحادی ممالک نے روس پر اِقتِصادی پابندیاں لگادی ہیں جبکہ وسیع تر تصادم کے خطرے میں مزید اِضافہ کر دیا گیا۔ اِس صورتحال میں پاکستانی میڈیا میں خصوصا حکومت مخالف عناصر کی طرف سے اِس دورہ کی ٹائمنگ کے حوالے سے بحث شروع ہوگئی۔ میرے نزدیک وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ روس کے منسوخ ہونے سے پاکستان کے بیرونی تعلقات اور عالمی سیاست میں قائم ساکھ کو زیادہ نقصان پہنچتا۔ یہ دورہ امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کے پس منظر میں بھی اہم تھا جبکہ اَمریکہ کی پاکستان کو نظر انداز کرنے، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فوکس جیو پولیٹیکل سے جیو اِکنامکس کی طرف ہونے جیسے محرکات ،پاکستان اور روس کے درمیان اَفغانستان سمیت علاقائی اِیشوز پر مفادات کا مشترک ہونا بھی اِس دورے کی اَہم وجوہات میں شامل تھا۔اِس دورے سے مطلوبہ مقاصد کس حد تک حاصل ہوئے ہیں؟ اِس پر مندرجہ ذیل سطور میں بحث کی جائے گی۔ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور روس کے دوطرفہ باہمی تعلقات گزشتہ دس برسوں کے دوران ماضی کی تلخیوں سے نکل کر باہمی اِعتماد کے مرحلے میں داخل ہوئے ہیں ،جس میں پاکستان کی سابقہ حکومتوں کی سفارتی کوششیں بھی تعریف کی مستحق ہیں کیونکہ یہ دو ریاستوں کے مابین تعلقات ہیں، جن میں شخصیات بہرحال اِتنی اَہمیت نہیں رکھتیں، البتہ حکمران اِپنے عہدِ اِقتدار میں ریاست کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھاتے ہیں۔گزشتہ چند برسوں میں اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے، جس کا سہرا آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو جاتا ہے۔ صدر زرداری نے2011 میں روس کا 4 روزہ دورہ کیا اور روسی صدر پیوٹن کو دورہ پاکستان کی دعوت دی، جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ تاہم صدر پیوٹن کا پاکستان کا دورہ ، ایک دفعہ تاریخیں طے ہونے کے باوجود ابھی تک عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تاہم، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے تقریباً نو سال بعد اپریل 2021 میں پاکستان کا دورہ کیا۔اس کے بعد سے اعلیٰ سرکاری سطح پر دو طرفہ بات چیت میں اضافہ ہوا ہے۔تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں اضافے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان سیکورٹی تعاون میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔مثال کے طور پر،دونوں ممالک 2016ء سے باقاعدگی سے مشترکہ فوجی مشقیں کر رہے ہیں،2018ء میں جب آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ نے روس کا دورہ کیا ،تو ایک مشترکہ فوجی کمیشن تشکیل دیا گیا۔ تعلقات کی موجودہ گرمجوشی امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں دراڑ کا نتیجہ بھی ہے، جس نے پاکستان کو خارجہ پالیسی کے انتخاب میں اپنی چوائس کو متنوع بنانے پر مجبور کیا ہے۔ اس عنصر کی وجہ سے پاکستان نے چین کے ساتھ گہرے اسٹریٹجک تعلقات قائم کیے ہیں اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ چین اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون نے ایک طرف بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتی دشمنی دوسری طرف اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان قریبی تعاون کی صورت اختیار کر لی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ دورہ روس بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی گرمجوشی کو اجاگر کرتا ہے۔ اس دورے کا وقت خطے میں عام طور پر بدلتی ہوئی سیاسی تبدیلی اور خاص طور پر مشرقی یوکرائن پر روسی حملے کے تناظر میں اہم بن گیا۔ خطے میں بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات پاکستان اور روس کے درمیان کثیر جہتی تعلقات کا باعث بنی ہیں جن میں دونوں ممالک کی مشترکہ فوجی مشقوں میں شرکت اور توانائی کے شعبے میں روس کی شمولیت شامل ہے۔ تعاون میں پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن کے نام سے کراچی سے لاہور تک 1100 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ موجودہ دورے کا ایک مقصد گیس لائن بچھانے کے اِس منصوبے کو جلد شروع کرنے کے اقدامات کرنا تھے، جس کے لیے وزیرِ اعظم اور روس کے نائب وزیرِ اَعظم ، جو پٹرولیم کی وزارت کو براہِ راست مانیٹر کرتے ہیں، کے مابین بھی مزاکرات ہوئے ہیں۔ پاکستان اور چین کی گہری دوستی کے باعث دورہ روس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھے گا کیونکہ بھارت جیسی بڑی عالمی منڈی کو نظر انداز کرنا بھی مشکل ہے البتہ عالمی سیاست میں متعدد عناصر بیک وقت اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں جن میں واضح تفریق کرنا بعض اَوقات مشکل ہوتا ہے۔ اَمریکہ سمیت تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے جبکہ پاکستان اَبھی بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن امریکہ کی چین کے ساتھ جاری تصادم کی پالیسی اور جنوبی اِیشیا میں ہندوستان کی برتری کی کوششوں کی اَمریکہ کی طرف سے بھرپور حمایت کی وجہ سے اِسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات لامحالہ متاثر ہوں گے۔ اگرچہ پاکستان بڑی عالمی طاقتوں کی عدوات میں پھنسنے سے بچنا چاہتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اَمریکہ اور پاکستان کے مابین موجودہ باہمی تعلقات ٹرانزیکشنل نوعیت اِختیار کرچکے ہیں جنکا مستقبل قریب میں سٹریٹجک نوعیت اِختیار کرنا تقریبا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ اَلبتہ پاکستان کے لیے اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا ناگزیر ہے جس کے لیے مختلف آپشنز اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔