مورخہ 3 اپریل 2020ء کو کالم لکھا کہ صدام حسین کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ اس میں میں نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ صدام کی موت کے ذمہ دار وسیب کے جاگیردار بھی ہیں جو ہمیشہ برسراقتدار رہے مگر اپنے علاقے میں غربت اور بیروزگاری کے خاتمہ کیلئے کوئی اقدام نہ کیا، میں نے اس موقع پر وسیب کے جاگیردار سیاستدانوں سے بھی اپیل کی کہ وہ بیوہ اور یتیم بچوں کی کفالت کریں۔مگر افسوس کہ کئی دن گزر گئے کسی جاگیردار اور کسی صاحب حیثیت نے کسی طرح کی مدد کا کوئی اعلان نہ کیا۔ جس پر 6 اپریل 2020ء میں نے اس موضوع پر دوسرا کالم ’’صدام حسین کے خاندان کو وزیر اعلیٰ پنجاب سے آس‘‘ کے عنوان سے لکھا آج صبح مجھے سیکرٹری اطلاعات و ثقافت محترم راجہ جہانگیر انور کا فون آیا اور انہوں نے واقعہ کی تفصیل جاننے کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ وزیر اعلیٰ صاحب کو غمزدہ خاندان سے ہمدردی ہے اور وہ مرحوم کی بیوہ کے ساتھ تین ماہ کے یتیم بچے کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ راجہ صاحب نے فرمایا کہ یہ معلوم کریں کہ اگر بیوہ پڑھی لکھی تو ہم وزیر اعلیٰ صاحب سے درخواست کریں کہ مالی کفالت کے ساتھ اُسے ملازمت بھی دیدیں۔ میں نے راجہ صاحب سے تھوڑا ٹائم لیا اور کہا کہ میں بیوہ کے تعلیمی کوائف بارے آپ کو پوچھ کر آگاہ کرتا ہوں۔ میں نے بیوہ کے والد غلام سرور خان جو کہ متوفی کا چچا بھی ہے اور ایک لحاظ سے والد بھی کہ غلام سرور خان کی نرینہ اولاد نہیں ہے اس بناء پر غلام سرور خان نے متوفی کو داماد کے ساتھ بیٹے کا پیار بھی دیا ہوا تھا۔ میں نے غلام سرور خان کو فون کیا تو غلام سرور خان کی ہچکی بندھ گئی اور انہوں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ میری بیٹی کی تعلیم مڈل تک ہے، میٹرک نہیں کر سکی، میں نے ساری بات راجہ جہانگیر انور صاحب کو بتا دی، راجہ صاحب نے فرمایا کہ ہم تمام باتیں وزیر اعلیٰ صاحب کے نوٹس میں لائیں گے اور درخواست کریں گے کہ بیوہ کیلئے درجہ چہارم کی ملازمت اور مالی مدد ہو جائے، اس میں اللہ اور اُس کے رسولؐ کی خوشنودی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری درخواست کو پذیرائی حاصل ہونے جا رہی ہے۔ خدا کرے کہ یہ کام ہو جائے، اللہ تعالیٰ اس کا اَجر وزیر اعلیٰ محترم سردار عثمان بزدار ، سیکرٹری اطلاعات و ثقافت راجہ جہانگیر انورکیساتھ ساتھ روزنامہ 92 نیوز کے مالکان کو بھی ملے گا اور روزنامہ 92 نیوز مالکان مدینہ فائونڈیشن کے حوالے سے غریبوں کی جو مدد کرتے ہیں یہ کام بھی اُسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پردیس میں رہنے والے تارکین وطن کی بہت خدمات ہیں۔ اُن کی طرف سے بھیجا جانے والا زر مبادلہ ملک کے معاشی معاملات کو حل کرتا ہے مگر بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی مشکلات کا بھی حکومت پاکستان کو احساس کرنا چاہئے اور بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانا چاہئے۔ صدام حسین خان کی خودکشی ایک مثال ہے کیا کوئی خوشی سے اپنے آپ کو مارتا ہے؟ مستقبل کا جو نقشہ نظر آرہا ہے تو اب بیرون ملک حالات خراب ہو رہے ہیں جو لوگ بیروزگار ہو کر واپس آچکے ہیں اُن کو روزگار ملنا مشکل نظر آرہا ہے، حکومت کو اپنے ملک کے اندر روزگار کے ذرائع پیدا کرنے ہوں گے، چین پاکستان کا دوست ہمسایہ ملک ہے اُس کی صنعتی ترقی کو ماڈل بنانا ہو گا اور اُس سے درخواست کرنی ہو گی کہ ایڈ کی بجائے ٹریڈ چاہئے۔ کورونا کی تباہ کاری کے باعث پوری دنیا میں ہولناک کساد بازاری شروع ہو چکی ہے۔ اشیاء کی قلت اور مہنگائی کا طوفان آئے گا، بڑے ملکوں کے درمیان معاشی جنگ ہو گی، جس کی لپیٹ میں غریب اور ترقی پذیر ممالک آئیں گے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ابھی سے معاشی استحکام کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ آج پوری دنیا میں کورونا کی جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور جسے کورونا جنگ کا نام دیا جا رہا ہے اور یہ سلوگن بار بار دہرایا جا رہا ہے کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے، دنیا میں اسلحے کے انبار ہیں ایٹم بم بھی موجود ہیں مگر اس جنگ میں وہ کسی کام کے نہیں۔ کیا کورونا جنگ نے دنیا کے طاقتور حکمرانوں اور خدائی دعویٰ کرنے والے بادشاہوں کو یہ دعوت نہیں دی کہ انسان کو مارنے والے ہتھیار نہیں انسانیت کو بچانے والی ادویات اور ہسپتالوں کی ضرورت ہے۔کورونا لاک ڈائون کے دوران جس سے جتنی مدد ہو سکے وہ غریبوں کیلئے کرے۔ کورونا لاک ڈائون کے دوران گھروں میں بیٹھنا ضروری ہے، احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے، اس حوالے سے ہم نے اپنی تنظیم کی طرف سے جہاں آگاہی مہم شروع کی وہاں اپنے ادارے جھوک پبلشرز کی طرف سے لوگوں کو مفت کتابیں دینے کا سلسلہ شروع کیا اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ گھروں میں بیٹھ کر مطالعہ کریں۔ آخر میں عرض کروں گا کہ کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں پوری پاکستانی قوم کورونا کے خلاف جنگ میں مصروف ہے مگر ملک دشمن عناصر دشمنیوں سے باز نہیں آتے، جس سے دلی صدمہ ہوتا ہے، گزشتہ روز شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں نے پاک وطن کے ایک سولجر جس کا تعلق جمرود سے تھا کو شہید کر دیا، ایسے واقعات پر دل خون کے آنسو روتا ہے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ زیادہ تر دہشت گرد درہ گومل افغانستان سے آتے ہیں، ٹانک ڈی آئی خان سمیت صوبہ بن جائے تو دہشت گردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بہت حد تک رک سکتا ہے۔ اہل وطن کی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی معرفت اسٹیشنوں پر کام کرنے والے قلیوں کے پاس امداد بھجوائی، میری درخواست ہے کہ وہ قلی جو نسل در نسل ریل مسافروں کی خدمت کرتے آرہے ہیں کی اولادوں کو ریلوے میں سرکاری ملازمتیں ملنی چاہئیں۔