وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار ڈیرہ غازی خان پہنچے ، دورے کے دوران عمائدین علاقہ سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ متعدد منصوبوں کا سنگ بنیاد شامل ہے ، ان میں 4 ارب روپے کی لاگت سے سردار فتح محمد بزدار انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، پل ڈاٹ کی کشادگی ، جدید انٹر سٹی بس ٹرمینل کی تعمیر ، سوشل سکیورٹی ہسپتال و دیگر منصوبوں کا سنگ بنیاد شامل ہے۔ ڈیرہ غازی خان وزیراعلیٰ کا گھر ہے ، وہاں کے مسائل پر توجہ ضروری ہے کہ ان کی آمد سے پہلے اپوزیشن کی طرف سے پروپیگنڈہ ہو رہا تھا کہ وزیراعلیٰ نے ڈی جی خان ڈویژن کیلئے کچھ نہیں کیا ، اسی بناپر حکومت پنجاب کی طرف سے شائع کئے گئے اشتہار میں ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل دی گئی ہے ۔ ڈی جی خان ڈویژن کو ترقی کا حق حاصل اس لئے بھی ہے کہ وسیب کے دوسرے علاقوں کی طرح ڈی جی خان بھی محرومی کا شکار رہا اور محرومی کا باعث دوسروں سے بڑھ کر اس علاقے کے وڈیرے رہے، اگر تبدیلی آئی ہے تو نظر آنی چاہئے ۔ ڈیرہ غازی خان کی تاریخی حیثیت کے بارے میں بات کرنے سے پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ سرائیکی وسیب وہ خطہ ہے جس کی محرومی کے قصے الیکشن سے پہلے وزیراعظم عمران خان تفصیل سے بیان کرتے رہے ۔ تحریک انصاف کی طرف سے محرومی کے خاتمے کیلئے صوبہ بنانے کا وعدہ ہوا ہے اور رواں مالی سال کے بجٹ میں تین ارب روپے سب سول سیکرٹریٹ کیلئے بھی رکھے گئے ۔ مالی سال ختم ہو رہا ہے ، ضروری ہے کہ صوبائی بجٹ میں رکھی گئی رقم بلا تاخیر سب سول سیکرٹریٹ کی بجائے صوبائی سیکرٹریٹ کیلئے خرچ کی جائے ۔ ملتان بگ سٹی کا اعلان سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے ملتان میں مشترکہ طور پر کیا ۔ نہ صرف ملتان بلکہ ڈی جی خان اور بہاولپورکو بھی بگ سٹی کا درجہ ملنا چاہئے ۔ ڈی جی خان جوکہ معدنی دولت سے مالا مال ہے، پر دشمن کی نظریں ہیں ، پچھلے دنوں نئی بننے والے فورٹ منرو پُل کو نقصان پہنچایا گیا اور ڈی جی خان میں ریلوے پٹڑی کو بم سے اڑایا گیا ، بھارت افغانستان کی معرفت را کے ذریعے علاقے میں دہشت گردی کرتا رہتا ہے ۔ جس پر عسکری ادارے یقینا نظر رکھے ہوئے ہونگے ، اس کے ساتھ وسیب کے عام آدمی کو بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے ۔ بھارت نے پاکستان کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا ، اب بھی پاکستان کو دولخت کرانے کے باوجود بھارتی رہنماؤں کی نفرت والی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ۔ اس ساری کہانی کو سمجھنے کیلئے تاریخ کا ادراک ضروری ہے ، تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے ،ڈی جی خان 4سو سال قبل بلوچوں کی ایران سے آمد سے بھی پہلے اہمیت کا حامل تھا کہ یہ خطہ دریائے سندھ کی زرخیزی کے ساتھ ساتھ معدنی دولت سے بھی مالا مال رہا ہے۔ تاریخ ڈیرہ غازی خان کے مطابق مہا بھارت کی جنگ اس علاقے میں لڑی گئی، ’’مہابھارت‘‘ تین لفظوں کا مرکب ہے اور یہ تینوں لفظ سرائیکی میں مہایعنی بڑی ‘بھایعنی آگ اور رت یعنی خون‘ مہا بھارت کی جنگ قریباً دو ہزار قبل مسیح بپاہوئی، یہ جنگ جو قلعہ دلورائے (نزد جام پور) لڑی گئی اس میں پہلی مرتبہ آگ کے گولوں کا استعمال ہوا۔ اس جنگ میں سرائیکی شاہی خاندان کے 200 افراد، فوجی 25000اور 50 راجے مہاراجے بھی مارے گئے، تاریخ میں بھی درج ہے کہ منگولوں نے اس علاقے پر کئی سو سالوں تک لوٹ مار کا عمل جاری رکھا۔ 900ء تا 1600ء منگولوں نے ڈیرہ غازیخان کے علاقہ جات سے اناج، مال مویشی اور دوسرے اسباب لوٹتے رہے منگوالوں کے بعد پٹھانوں نے اس علاقے پر یلغار کی اور اسے کابل کے ماتحت کر دیا۔ 558ء قبل مسیح یہاں سرائیکی ’’ڈہے‘‘ خاندان کی حکومت تھی اور یہاں اس خاندان کی ملکہ تومی داس حکمران تھی۔ اس پر ایران کے بادشاہ سائرس کی فوجوں نے حملہ کر دیا مگر ڈاہے خاندان کی حکومت نے ایران کی فوجوں کو شکست دی۔ تاریخ ڈیرہ غازیخان میں قدیم مذاہب کے ذکر میں بتایا گیا کہ گوماتا کی بنیاد اس علاقے میں رکھی گئی، اور دنیا کی قدیم کتاب رگ وید اس علاقے میں لکھی گئی۔سکندر اعظم نے ملتان پہنچنے سے پہلے ڈیرہ غازیخان کے جن شہروں اور قلعہ جات کو برباد کیا ان میں قلعہ ہڑند، کھانڈوپرساد شہر (دلورائے ٹھیڑ)کن ٹھیڑ، ٹھیڑی، ڈراویلہ، ٹھیڑ کنڈے والا، ٹھیڑ کوٹ ہیبت، ٹھیڑ کہیہ مکڑاہاد، ڈھیڑہ (وہوا) وغیرہ شامل ہیں۔ بدبخت سکندر اعظم ڈیرہ غازیخان کے علاقے میں دو لاکھ کے لگ بھگ مرد، عورتیں، بوڑھوں، جوانوں اور بچوں کو تہہ تیغ کیا۔ (بحوالہ تاریخ ڈیرہ غازی خان مولف احسان چنگوانی) وسیب کے تاریخی پس منظر کا تقاضا یہ ہے کہ حفاظتی اقدامات کے ساتھ محرومی کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔ سرائیکی وسیب کو ہمیشہ یہ طعنہ ملتا آ رہا ہے کہ وسیب کے لوگ ہمیشہ بر سر اقتدار رہنے کے باوجود انہوں نے اپنے خطے کیلئے کچھ نہیں کیا تو لاہور کو طعنہ کیوں دیا جاتا ہے ؟ اس وقت عمران خان اور سردار عثمان خان کی شکل میں وسیب کے پاس دوہرا اقتدار ہے ، خیبرپختونخواہ میں بھی تحریک انصاف کی حکومت ہے ۔ اچھی بات ہے کہ سردار عثمان خان بزدار ڈی جی خان میں یونیورسٹی قائم کی ہے ، ایک یونیورسٹی سخی سرور ، جھنگ میں سلطان باہو، لیہ میں تھل یونیورسٹی، مظفر گڑھ میں سردار کوڑے خان، چشتیاں میں مہاروی، پاکپتن میں بابا فرید، کوٹ مٹھن میں خواجہ فرید ، تونسہ میں شاہ سلیمان تونسوی ، چنیوٹ میں چنیوٹ یونیورسٹی اور میانوالی میں میانوالی یونیورسٹی بھی ہونی چاہئے اور خانپور کیڈٹ کالج کو فنکشنل ہونے کے ساتھ دیگر علاقوں میں بھی کیڈٹ کالج بننے چاہئیں ۔ پلاک کی طرز کا ادارہ سرائیکی زبان اور پوٹھوہاری زبان کی ترقی کیلئے بھی ضروری ہے۔ابتدائی تعلیم ماں بولی میں ملنی چاہئے۔ کالجوں میں سرائیکی لیکچرر اور سکولوں میں سرائیکی پڑھانے والے اساتذہ کی ضرورت ہے ۔ وسیب میں ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے یکجہتی کیلئے کام ہونا چاہئے ، تفریق ، نفاق پیدا کرنے والے اقدامات سے گریز ہونا چاہئے ۔ کورونا وبا کا سب سے بڑا سنٹر ملتان میں بنا کر ظلم کیا گیا ، اب اس کا ازالہ نہیں تو کم از کم طبی سہولتیں اور باہر سے آنے والی طبی امداد کی تقسیم تو برابر کی جائے ۔