پاکستان اور چین کے درمیان تعاون اور اشتراک موجود ہے ۔وزیراعظم عمران خان کے موجودہ دورہ چین سے دونوں ملکوں کے تعلقات میںمزید وسعت اور گہرائی پیدا ہوگی۔ وزیراعظم بیجنگ کے چار روزہ دورہ پرہیں جہاں وہ چینی قیادت سے بالمشافہ ملاقات کررہے ہیں۔ وہ چین کی دعوت پر بیجنگ گئے جہاں انہوں نے موسم سرما کے اولمپکس کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ چین سے پاکستان کے تعلقات کی ایک اہم جہت دفاع اور سلامتی سے متعلق ہے۔ جب سے امریکہ نے پاکستان سے بے رُخی اختیار کی ہے اورخطہ میںبھارت کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات کو فروغ دینا شروع کیا ہے ہماری دفاعی اور عسکری ضروریات بیجنگ پوری کررہا ہے۔ کسی زمانہ میں امریکہ ہمیں جدید ترین اسلحہ دیتا تھا۔ اب اسکا یہ کردار ختم ہوچکا ہے۔امریکہ پاکستان کو جدید اسلحہ اور ہتھیار فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔ہم نے چین کی مدد سے ایف سولہ طیاروں کی جگہ اپنے جے ایف تھنڈر طیارے اور ان کے ترقی یافتہ ماڈل بلاک ٹو اور بلاک تھری بنا لیے۔ پاکستان کی مخالفت میں واشنگٹن یہاں تک چلا گیا کہ اس نے ترکی کو ہمیں جدید جنگی ہیلی کاپٹر (ٹی 129) فروخت کرنے سے منع کردیا کیونکہ ان میں امریکی ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے۔ ان کی جگہ ا سلام آباد نے حال میں چین سے زیڈ 10ایم ای جنگی ہیلی کاپٹر خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔تین سال پہلے فروری میں جب انڈیا نے بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا تو اس کے فوراً بعد چین نے پاکستان کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل دیے تاکہ ہم آئندہ ایسے حملوں کی زیادہ موثر روک تھام کر سکیں۔اگست 2019 میں پاکستان اور چین کے درمیان عسکری تعلقات میں ایک اہم موڑ آیا جب بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیرکا خصوصی درجہ ختم کردیا۔ اس بھارتی اقدام کا اثر چین پر بھی پڑا کیونکہ ریاست جموںکشمیر کا ایک حصہ لدّاخ بھی ہے جو چین اور انڈیا کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے۔ لدّاخ میں بھارتی افواج کی بڑھتی سرگرمیاں ‘ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کا اقدام اور امریکہ سے بھارت کی قربت نے چین کو چوکنا کردیا۔ اس نے چند ماہ بعد لداخ کی وادی گلوان میں بھارت کی پیش قدمی کے سامنے بند باندھا۔ اگست دو ہزار انیس کے بعد سے پاکستان اور چین کی افواج کے درمیان رابطے مزید مستحکم ہوگئے۔ پاکستان نے لدّاخ سے متصل اسکردو میں اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوط بنایا۔ فرانس سے جدید جنگی طیارے رافیل خریدنے اور رُوس سے ایس 400 نامی دفاعی میزائل نظام خریدنے کے بعد بھارت کے جارحانہ عزائم مزیدبڑھ گئے تھے۔ بیجنگ نے اس کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان کو جے 10 جنگی طیاروں کے دو اسکواڈرن اورزمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل دفاعی نظام ایچ کیو9 فراہم کیے۔ چینی سرمایہ کاری کی مدد سے ملک میںنو خصوصی معاشی زون بنانے پر کام ہورہا ہے۔ ان مراکز میں ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ جرمنی اور ہالینڈ کی کمپنیاں بھی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ بیجنگ میں وزیراعظم کی سربراہی میں پاکستانی وفد کی چین کی بڑی کاروباری کمپنیوں کے سربراہوں سے بات چیت ہوئی جس میں دونوں ملکوں نے صنعتی شعبہ میں تعاون کے فریم ورک پر اتفاق کیا ہے جس کے تحت چینی کمپنیاں گوادر میں اگلے تین سال تک ساڑھے تین ارب ڈالرسے پراسیسنگ پارک قائم کریں گی اورپچیس کروڑ ڈالر کی مالیت سے لاہور کے قریب ٹیکسٹائل کے زون میں سرمایہ کاری کریں گی۔ چینی ادارے پاکستان میں زرعی شعبہ کی ترقی میں بھی سرمایہ کاری کریں گے۔فصلوں کے نئے بیج بنانے کی ٹیکنالوجی میںہماری مدد کریں گے۔ چینی سرمایہ کاری کے راستے میں دو بڑے چیلنج ہیں۔ ایک ‘ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے اور دہشت گردوں کو نکیل ڈالی جائے۔بلوچستان میں تازہ وارداتیں سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے کی گئی ہیں تاکہ چینی کمپنیوں کو ڈرا کر پاکستان سے دور رکھا جاسکے۔ ہماری ریاست کو انٹیلی جنس نظام کو مزید مضبوط بنانے اور داخلی سلامتی کے اداروں کی استعداد بڑھانے پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔دہشت گردوں کے مراکز کو ختم کرنے کے لیے ڈرون طیاروں اور آرٹی فیشل ذہانت سے مدد لی جائے۔ دوسرے‘ ہماری افسر شاہی کا طریق کار اور روّیے پوری طرح جدید معاشی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ افسر شاہی کی تربیت اور انکی روایات ایسی ہیں کہ یہ کام میں تاخیر کرنے کی ماہر ہے۔انتظامی ڈھانچہ میں ضروری تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ سرکاری افسران بیرونی سرمایہ کاروں کو سہولتیںاور سازگار ماحول مہیا کریں۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہت محدود کرلیے ہیں۔امریکہ کی بے رُخی اور چین کے ساتھ گہرے عسکری اور معاشی اشتراک کے بعد پاکستان کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ نئی سرد جنگ میں امریکی بلاک کا حصہ بنے۔پاکستان کو یکسُو ہو کر چین سے اپنے اشتراک اور تعاون کو پائیدار اتحاد میں تبدیل کرنا چاہیے۔پاکستان اپنے سے چھ گنا بڑے دائمی دشمن انڈیاکا تنہا رہ کر مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہمیں چین کا ویسا پکاّاتحادی بننا چاہیے جیسا جاپان اور جنوبی کوریا امریکہ کے اتحادی ہیں۔ یا کمیونسٹ روس کے ساتھ سرد جنگ کے دوران میں جرمنی اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی تھے۔ ان ملکوں نے امریکہ کی دفاعی چھتری تلے آکراپنے وسائل معاشی ترقی کیلیے وقف کردیے اور زبردست معاشی ترقی کی۔سنگا پور اور آسٹریلیا نے امریکہ کے ساتھ اتحاد کرکے معاشی ترقی کی اور آج تک اس کے ساتھ نتھی ہیں۔ ہمیں بھی چین کی چھتری کے نیچے آکر ساری توجہ اپنی معاشی پسماندگی دُور کرنے پر لگانی چاہیے۔جس قوم کے پاس دولت نہ ہو اس کا دفاع بھی مضبوط نہیں ہوتا ۔ قدرت نے پاکستان کو بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ہماری بندرگاہیں اور محل وقوع چین کیلیے اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ ان سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور ہم چین کی مدد سے صنعتی ترقی کریں۔ دونوں ملکوں کے لیے یہ باہمی سُود مند رشتہ ہے۔