سرائیکی صحافیوں اور لکھاریوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں اس سوال پر بحث ہوئی کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو سرائیکی علاقوں کے مسائل حل کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ مختلف لوگوں نے تجاویز اور مشورے دئیے، ایک دوست نے وہ بحث مجھے فارورڈ کی اور اس سوال کا جواب مانگا۔یہ کالم بنیادی طور پر اس سوال کا جواب پانے کی ایک جستجو ہے۔ جس کسی کو سرائیکی وسیب (خطے)میں رہنے، سفر کرنے یا وہاں کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، وہ یہ بات تسلیم کریں گے کہ وہاں کے مسائل بہت زیادہ ہیں اور اسی وجہ سے لوگوں میں محرومی کا احساس بے پناہ ہے۔ کوئی اور خطہ ہوتا تو ایسی محرومی، شکایات اور مسائل کی وجہ سے شدید ایجی ٹیشن شروع ہوچکی ہوتی۔ سرائیکی وسیب میں صوفیانہ اثرات بہت زیادہ ہیں، لوگوں کے اندر سافٹ نیس ہے اور شعلہ کی طرح بھڑکنے کے بجائے وہ اندر ہی اندر سلگتے اور اپنا وجود راکھ بنا دیتے ہیں۔ محرومی کی وجہ سے وہ امید کی معمولی سی کرن پر بھی لپک جاتے ہیں کہ شائد ان کے نصیب کا اندھیرا چھٹ گیا اور صبح کی روشنی نمودار ہونے لگی ہے۔ افسوس کہ ہر بار انہیں پہلے سے زیادہ مایوس اور دل شکستہ ہوکر لوٹنا پڑتا ہے۔ یہ امیدمگر آج بھی برقرار ہے۔ تونسہ جیسی دورافتادہ مسائل کا شکار تحصیل اورمتوسط گھرانے کے سیاستدان عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے سے سرائیکی وسیب میں ایک بار پھر امید اور توقعات نے جنم لیا ہے۔ مختلف حلقوں میں اس پر بحثیں جاری ہیں کہ کیا سرائیکی خطے کی تقدیر بدلنے والی ہے؟ عمران خان کو جنوبی پنجاب سے بڑی تعداد میں نشستیں اور بھرپورمینڈیٹ ملا۔ عوام توقع کر رہے ہیں کہ خان صاحب سرائیکی صوبہ بنائیں گے اور خطے کی محرومی دور ہوسکے گی۔ عثمان بزدارمسائل، غربت اور محرومی کی شدت سے باخبر اور اس کے عینی شائد ہیں۔ وہ عملی طور پر کس حد تک کام کر پائیں ، اس بارے میں ابھی تک یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میرے خیال میں چند ایک نکات ایسے ہیں، جن کی جانب وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو توجہ دینی چاہیے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ منصب جلیلہ صرف انہیں سرائیکی وسیب کی وجہ سے ملا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا کہ سرائیکی وسیب کے کسی سیاسی رہنما کو صوبے یا مرکز میں اہم ذمہ داری دی گئی۔ مقصد اس کا یہی تھا کہ چونکہ اس کا تعلق سرائیکی علاقوں سے ہے، اسے مسائل کا علم ہوگا، وہ وہاں کے لئے کام کرے گا۔ بدقسمتی سے لاہور آ کر ان تمام سرائیکی رہنمائوں کے دل میں قومی رہنما بننے کا خیال سما جاتا ہے۔ وہ اس ڈر سے سرائیکی علاقوں کا نام نہیں لیتے یا وہاں کے لئے خصوصی ترجیحی فنڈز نہیں مختص کرتے کہ کہیں انہیں سرائیکی عصبیت کا شکار نہ سمجھ لیا جائے ۔ ان کے اندر کا احساس کمتری انہیں جائز کام بھی کرنے سے روکتا ہے، وہ قومی لیڈر بننے کے شوق میں اپنے آبائی علاقوں کو محروم کر دیتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو اگرچہ انہوں نے ملتان شہر کے کئی فلائی اوورز منظور کرائے، مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ گیلانی صاحب نے سرائیکیوں کے لئے گراں قدر کام کئے۔ اپنے تمام تر اختیارات اور قوت انہوں نے عامیانہ ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کی اور جی بھر کی رسوائی سمیٹی، سرائیکی وسیب کے لئے کوئی بڑا پراجیکٹ وہ نہ لا سکے۔ عثمان بزدار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انہیں ایک غریب، پسماندہ علاقے کے نمائندے کے طور پر منتخب کیا گیا۔بلوچوں کے بعض قبائل جیسے کھوسہ، میرانی وغیرہ سرائیکی بولنے والے ہیں، جبکہ بعض قبائل جو پہاڑ پر آباد ہیں، وہ بلوچی بولتے ہیں، اگرچہ مقامی زبان ہونے کی وجہ سے انہیں سرائیکی بھی اچھی آتی ہے۔ بزدار بھی بلوچی بولنے والا قبیلہ ہے۔ عثمان بزدار اپنی بلوچی شناخت کا فخریہ اظہار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں، وہ بلوچ ہیں، ان کا حق ہے، مگر وہ سرائیکی بھی ہیں اور سرائیکی وسیب کے لیڈر کے طور پر وزیراعلیٰ بنے ۔ سرائیکی ہونا ان کا اہم حوالہ اور بنیادی شناخت ہونی چاہیے۔ سرائیکی زبان اور مخصوص نیلی سرائیکی اجرک گاہے ان کی شخصیت کا حصہ بنے تو بھلی لگے گی۔ عثمان بزدار پورے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، صوبے بھر کا مفاد عزیز رکھنا چاہیے، تاہم لاہور اور اپر پنجاب کے لئے کچھ کرنے کا ان کے پاس مارجن نہیں۔ یہاں اہم عہدے طاقتور وزرا کے پاس ہیں،وزیراعظم عمران خان نے جنہیں ذاتی طور پر اہداف متعین کر رکھے ہیں، وزیراعلیٰ کوارڈی نیٹ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پائے گا۔ سرائیکی وسیب کے لئے البتہ وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ ترجیحی فہرست بنا لیں اور یہ دیکھیں کہ کون سے ایسے کام ہیں جو فوری طور پر کئے جا سکتے ہیں، انہیں تو کر لیا جائے۔ وہ یہ بات جانتے ہوں گے، یاد دلانے کے لئے لکھ رہا ہوں کہ سرائیکی علاقوں کے لئے کچھ کرنا الگ بات ہے اور سرائیکی قوم ، خاص کر سرائیکی زبان وکلچر کے لئے خاص طور سے کچھ کرنا ایک اور ایشو۔دوسرا یہ کہ صرف ملتان کا نام جنوبی پنجاب یا سرائیکی وسیب نہیں۔ ہمارے ہاں لاہور یا سنٹرل پنجاب کے لیڈر تمام بڑے پراجیکٹ ملتان میں شروع کر کے سمجھتے ہیں کہ سرائیکیوں کی پسماندگی دور کر دی۔ عملی طور پر ایسا کرتے ہوئے وہ تخت لاہور کی جگہ تخت ملتان کو تشکیل دے رہے ہیں۔ سرائیکی وسیب کے تین چار اہم پاکٹس ہیں۔ ملتان کی بڑی اہمیت ہے اور اس شہر کو مزید ترقی ملنی چاہیے، مگربہاولپور ڈویژن ایک الگ سے پاکٹ ہے اور بدقسمتی سے وہ ہمیشہ محرومی کا شکار رہا۔یہاں کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ سابقہ ریاست بہاولپور کے دور میں ادھر بہت کام ہوئے۔ بہاولپور ہندوستان کی خوشحال ترین ریاست تھی،عوام بھی خوشحال تھے، آج سب کچھ برباد ہوچکا۔ سرائیکی وسیب میں ریاست بہاولپور کے لوگوں کا قدرے مختلف مزاج اور مائنڈ سیٹ ہے۔ ڈی جی خان ایک اور الگ قسم کی پاکٹ ہے، جس کے اپنے دیرینہ مسائل ہیں۔ چوتھی پاکٹ تھل کے علاقوں کی ہے۔ یہ سب سے بدقسمت علاقہ اور لوگ ہیں۔ دو تین الگ الگ ڈویژنز میں تھل کے لوگ بٹے ہوئے ہیں۔ اس پرالگ سے بات کرتے ہیں۔ سرائیکی صوبہ کے لئے پیش رفت کرنا، معاملات آگے بڑھانا وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے۔ شنید ہے کہ ملتان میں ریجنل سیکریٹریٹ بنانے کا کام جاری ہے، شہباز شریف کے دور میں بھی یہ اعلان ہوا، مگر عملی طور پر کام ٹھپ ہی رہا۔ اس بار توقع ہے کہ یہ سیکریٹریٹ بن جائے گا اور ممکن ہے وزیراعلیٰ بھی ہفتہ میں ایک آدھ دن یہاں بیٹھا کریں۔ یہ ایک اچھا، مستحب اقدام ہوگا، جسے سراہنا چاہیے۔ اس سے لوگوں کے کچھ مسائل ضرورحل ہوجائیں گے، مگر تحریک انصاف اور عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبہ کا متبادل نہیں۔ وقتی علاج ہوسکتا ہے، مگر وعدہ الگ صوبہ بنانے کا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا ہی پڑے گا۔ صوبہ بنانے بہت اہم کام ہے، اس میں بعض تکنیکی مسائل ہیں، صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت نہیں، کچھ وقت لگ سکتا ہے، یہ مطالبہ صوبے بنانے کے لئے کمیشن قائم کر کے اسکے حوالے کرنا چاہیے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ پسماندہ سرائیکی علاقوں کوفوری ترقی دینے میں کیا قباحت ہے؟سرائیکی وسیب میں کئی قدیمی تحصیلیں ایسی ہیں جنہیں ضلع بنانے کا دیرینہ مطالبہ کیا جا رہا تھا، مگر کسی نے کان نہیں دھرے۔ بہاولپور ڈویژن میں پچھلے ساٹھ برسوں سے تین اضلاع بہاولپور، بہاول نگر اور رحیم یار خان ہیں۔ جبکہ سنٹرل پنجاب میں کئی تحصیلیں ضلع ہو کر ڈویژن بن چکی ہیں۔ یہاںہر پندرہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر نیا ضلع شروع ہوجاتا ہے، ننکانہ، منڈی بہائوالدین، حافظ آباد وغیرہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔دوسری طرف بہاولپور سے رحیم یارخان اور بہاولنگر کا فاصلہ ڈھائی تین گھنٹوں پر محیط ہے ۔ بہاولپور ڈویژن میں احمد پورشرقیہ اور خان پور ایسی تحصیلیں ہیں جنہیں باآسانی ضلع بنایا جا سکتا ہے۔ پانچ اضلاع پر مشتمل ڈویژن میں کوئی حرج نہیں، گوجرانوالہ بھی چھ اضلاع پر مشتمل ڈویژن ہے۔ اسی طرح عثمان بزدار کی تحصیل تونسہ شریف کو ضلع بنانا چاہیے ۔ یہ پنجاب کی آخری اور سب سے پسماندہ تحصیل ہے۔ ممکن ہے یہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی کم ہو، لیکن جہاں کوئی صنعت نہیں، روزگار نہیں، وہاں سے ٹیکسز کے ذریعے آمدنی کم ہی ہوگی۔ صوبائی حکومت کو ایسی پسماندہ تحصیلیوں کوخصوصی گرانٹ دے کر ضلع بنانا چاہیے۔ عیسی خیل میانوالی کی وہ پسماندہ تحصیل ہے جو دریا کی پرلی طرف واقع ہے۔ عیسی خیل سے میانوالی کا کل فاصلہ پینتیس کلومیٹر ہے، مگر دریا پر پل نہ ہونے کے باعث عیسی خیل والوں کو ترانوے (93) کلومیٹر کا سفر طے کر کے میانوالی آنا پڑتا ہے۔ عمران خان پر میانوالی کا بہت قرض ہے، انہیں عیسیٰ خیل سے میانوالی تک پل ترجیحی بنیاد پر بنانا چاہیے۔عیسیٰ خیل کو اگر ضلع بنا دیا جائے تو یہ پسماندہ علاقہ ترقی کرے گا اور میانوالی پر سے خاصا بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔ داستان ہجر والم طویل ہے اور کالم کی گنجائش محدود۔، اگلی نشست میں سرائیکی زبان، کلچر پر بات ہوگی ، اس کے علاوہ میانوالی تا مظفر گڑھ روڈ (ایم ایم روڈ)اور تھل ڈویژ ن کے تصورپر ڈسکس کریں گے۔رب نے چاہا تو اس بار اگلی نشست والاوعدے میں تاخیر نہیں ہوگی۔