ایوان صدرکے پرشکوہ وسیع وعریض ہال میں ہزار کے قریب مہمانوں کے باوجود اتنی خاموشی تھی کہ کوئی ذرا کھنکھارتا بھی تو دور تک آواز گونجتی۔ میاں نوازشریف کے بنائے ہوئے صدر ممنون حسین کے جلو میں نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی آمد کاجب لمحہ لمحہ گِنا جارہاتھا تو میرے سامنے ماضی کی فلم چلنے لگی۔۔۔ 2003ء میں، میں نے اسی ایوان صدر میں مسلم لیگ ق کے وزیر اعظم میر ظفراللہ خان جمالی کووزیراعظم بنتے دیکھا۔۔۔ جو بمشکل 172کی گنتی پوری کرپائے تھے۔ اور اس کا بھی سارا اہتمام و انتظام صدر جنرل پرویزمشرف کی چھڑی سے ہواتھا۔ 2008ء میں وزیراعظم سے زیادہ اہم وہ تقریب تھی جس میں اپنی بیگم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اْن کے شوہر آصف علی زرداری نے صدارت کا منصب سنبھالاتھا۔ باقاعدہ جمہوری انداز میں اْن کا ’’ووٹوں‘‘ سے صدر بننا ایک معجزہ ہی تھا۔۔۔ حلف لیتے ہوئے اپنے والدِمرحوم حاکم علی زرداری سمیت ایک پورے لشکر کیساتھ ایک ایک سے ہاتھ ملا رہے تھے۔مگر زیادہ مبارکبادیں حاکم علی زرداری وصول کررہے تھے۔ صرف محترم آصف علی زرداری صدر ہی نہیں بنے بلکہ اپنی مدت بھی پوری کی۔اس دوران محترم یوسف رضاگیلانی اور چند ماہ راجہ پرویز اشرف وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ مگر سرکار میں سکہ رائج الوقت زرداری صاحب کا ہی چلتا تھا۔ 2013ء میں میاں نواز شریف تیسری بار بڑی دھوم دھام اور بھاری اکثریت سے وزارت ِ عظمیٰ کے عہدہ جلیلہ پر پہنچے۔ میاں صاحب اپنی طویل جلا وطنی کے دوران بڑی سوچ، بچار کے بعد یہ ذہن بنا چکے تھے کہ اس باری وہ اقتدار کے تمام ستونوں کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھیں گے۔سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ، سابق صدر فاروق لغاری، اور ایک حد تک سابق صدر رفیق تارڑ اور سابق جنرل پرویز مشرف نے جس طرح انہیں بیچ اقتدارڈسا تھا۔۔۔ اْس سے یہ طے کئے بیٹھے تھے کہ ساڈاصدر تے ساڈا جج سے زیادہ ساڈے جنرل کے بغیر شریف خاندان کا سیاسی مستقبل محفوظ نہیں ہوسکتا۔۔۔ اس دوران اْن کی صاحبزادی مریم نواز ایک ہونہارشاگرد کی حیثیت سے اپنے والد کے اقتدار میں ہونیوالے سرد و گرم موسم سے آشنا ہورہی تھیں۔ ہماری کراچی کے ’’دہی بھلے‘‘ کے حوالے سے مشہور ایک اوسط درجے کے گھرانے کے محترم ممنون حسین صدارت کیلئے ایک بہترین چوائس تھے۔ جارح چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جگہ بھی ایک نرم خو چیف عدالت ِ عالیہ کی کرسی پر تھے۔ جنرل اشفاق پرویزکیانی کے بعد جنرل راحیل شریف خاندانی ہی نہیں، عسکری طور پر بھی ایک پروفیشنل فوجی تھے۔ اْنکے بعد آنیوالے آرمی سربراہ جنرل قمر باجوہ ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کے مقابلے میں زیادہ منکسر المزاج اور پروفیشنل فوجی کی شہرت رکھتے تھے۔ سوعمران خان کے چیختے چلاتے دھرنے کے باوجود اقتدار کے سارے ستون اْن کے گرد ’’حصار‘‘ باندھے کھڑے تھے اس لئے الیکشن سے سال بھر پہلے تک اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں نے یہی زائچہ بنایا ہوا تھاکہ۔۔۔ جولائی 2018ء میں بھی تختِ لاہورکے ساتھ تختِ اسلام آباد پربھی شریف خاندان ہی بیٹھے گا۔اس دوران یہ افواہیں گردش تو کرتی رہیں مگر مستند شواہدنہ تھے کہ پنڈی و آب پارہ شریف خاندان کی ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کیساتھ غیر معمولی یاری سے کوئی بہت زیادہ خوش نہیں۔ بھارت کے بزنس ٹائکون اور شریفوں کی بزنس ایمپائر کے درمیان تجارتی لین دین پر بھی ’’رائی کو پربت‘‘ بنایاجارہاتھا۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے جلسوں کا زور بڑھ رہا تھا۔ مگر سیاست میں محض جلسوں سے اقتدار کی جنگ نہیں جیتی جاتی۔ اپریل 2016ء میں جب پانامہ کا بھانڈا پھوٹا تو اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیاگیا۔اس دوران ڈان لیکس بھی ہوگیا جو پنڈی آب پارہ کی شدید برہمی کا باعث بنا۔۔۔ پانامہ لیکس میں جے آئی ٹی کے بننے کو بھی شریفوں نے اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ اس کے قیام کا خیرمقدم کیا۔۔۔۔ 25 جولائی کے الیکشن سے مہینہ دو پہلے وزیر اعظم کے عہدے سے نااہلی اور پھر صاحبزادی اور داماد کے ساتھ 14سال قید بامشقت پاکستانی سیاست میں اتنا بڑا بھونچال لائے گا۔۔۔ اس کا تصور بھی سال بھر پہلے کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ اسے اتفاق قطعی نہیں کہا جاسکتا۔ سزا کے ساتھ یہ سبق سارے شریف خاندان کو دینا تھا کہ جس دن محترم عمران خان 14 گاڑیوں کے قافلے میں وزارت عظمیٰ کا حلف لینے ایوانِ صدر جارہے تھے ٹھیک اسی وقت ایک بقدر ِ بند گاڑی میں تین بار منتخب وزیر اعظم کو احتساب عدالت میں لے جایا جارہا تھا۔ 2008ئ۔۔۔۔ 2013ء سے 18اگست 2018ء کو ایوان صدر کاماحول بڑا مختلف تھا۔ اکثریت توانہیں سفارتکاروں، سول ملٹری بیوروکریٹس کی ہی تھی جو ’’سْتے‘‘ ہوئے چہروں پر نمائشی مسکراہٹ لئے ’’ہلو ہائے‘‘ میں مصروف تھے۔ مگر 2008ء اور پھر 2013ء کے مقابلے میں پی پی اور ن لیگ کے جیالوں اورشیروں کے مقابلے میں خان صاحب کے کھلاڑیوں کی اوّل تو تعداد انتہائی محدود تھی۔۔۔ دوسرے خوشی اور خوف کے امتزاج نے اْن کی زبانوں کو گنگ کیا ہوا تھا۔۔۔۔ تحریک انصاف کے سربراہ کے حلف اٹھانے پر تالیاں تو خوب پٹیں۔۔۔ مگر ’’نعرہ‘‘ ایک نہیں لگا۔ جس کے بغیر ماضی میں یہ تقریب ادھوری رہتی۔ 18 اگست سے یہ تحریرلکھنے تک سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہورہا ہے۔۔۔ تحریک انصاف کے قائد کو 22 سال کی مشقت کے بعد اس خواب کی تعبیر مل گئی جسے وہ قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعرِمشرق علامہ اقبال کا خواب کہا کرتے تھے۔مگرخواب کوحقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے ایک سمندر پار کرنا ہوتا ہے۔ پہاڑ جیسے مسائل۔۔۔ دہائیوں سے کرپشن کی عادی نوکر شاہی اور ہاں۔۔۔۔ پھر ’’عوام‘‘ جنہیں مطمئن کرنا جوئے شیِر لانا ہے۔۔۔ اور وہ بھی صرف پانچ سال میں۔۔۔ وزیر اعظم عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی نے اپنے پہلے رد عمل میں جو نپی تْلی دو ٹوک رائے دی۔۔۔مجھے اْس سے سو فیصد اتفاق ہے۔ بشریٰ بی بی کہتی ہیں انہیں خوشی سے زیادہ خوف ہے۔۔۔۔ مگر ہاں ایک اضافہ: آغاز تو بہر حال اچھا ہے۔