تجزیہ:سید انورمحمود کوئی بھی شخص جس میں معمولی سا بھی احساس اور حساسیت موجود ہے وہ اپنے سیاسی و مذہبی نظریات سے قطع نظر،کبھی بھی کسی بھی صورتحال میں ریپ کا دفاع نہیں کرے گا۔ نہ ہی عمران خان نے کیا، نہ اب اور نہ ہی کبھی ماضی میں۔اب ان کے تازہ بیان پرجس میں انہوں نے مبینہ طور پر کہا خواتین کا مختصر لباس توجہ مبذول کراتاہے ، سیاسی مخالفین نے ان کیخلاف ایک منظم مہم شروع کر دی ہے ، بالخصوص ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں لوگ بالعموم خواتین کو مغربی معاشرے کی طرح مختصر لباس میں دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔ یہ ایک حقیقت پر مبنی بیان ہے ۔ ہر معاشرے کی اپنی اقدار ہوتی ہیں، پاکستان میں خواتین کو آزادی ہے کہ وہ اپنی پسند کا لباس پہنیں، تاہم یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ باقاعدہ اور مناسب لباس پہنیں گی۔اب باقاعدہ اور مناسب کیا ہے ،تو یہ یقیناً رائے اور ترجیح کا معاملہ ہے لیکن یہ توقع کی جاتی ہے کہ ترجیح عمومی اقدار کے مطابق ہوگی۔وزیراعظم کے تبصرے کی طرف لوٹتے ہیں، میں نے حتی الوسع اس بیان کو احتیاط سے پڑھا ہے لیکن میں ان کے الفاظ اور ریپ کے درمیان کوئی تعلق نہیں ڈھونڈ سکا، اس کا دفاع تو دور کی بات ہے ۔ ان پر شاید یہ الزام لگایا جا سکتا ہے انہوں نے اپنے الفاظ کا انتخاب محتاط طریقے سے نہیں کیا،لیکن انہیں بس اسی بات کیلئے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔ افسوس کہ ہمارے خود ساختہ ’’لبرلز‘‘ ان کے بیان کو توجہ سے پڑھے بغیر ہی بھاگ کر سیاسی اپوزیشن کے ساتھ مل گئے ۔ یہ سچ ہے کہ ریپ کا قابل مذمت اور ناقابل معافی فعل ایک دماغی حالت ہے جس کا خواتین کے لباس سے بہت کم تعلق ہے ۔لیکن کیا ہم اس حقیقت کو جھٹلا نہیں رہے کہ مغرب کے برعکس، یہاں مشرق میں جب کوئی خاتون ناکافی لباس میں سڑک پر جاتی یا دکان پر نظر آئے تو آنکھیں اس کا پیچھا کرتی ہیں۔میں وزیراعظم کی حمایت نہیں کرتا لیکن مجھے یہ بہت افسوسناک لگا کہ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کا ایک حصہ جو اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے ،چیزوں پر تنقید کرنا شروع کر دیتا ہے یہ جانے بغیر کہ اصل میں کیا کہا گیا ہے یا کیا کیا گیا ہے ۔جو نامناسب گرد وہ اڑاتے ہیں اس سے ملک غلط جگہ پر چلا جاتا ہے ۔اور یہی سب کچھ بار بار ہوتا ہے ۔ سیاسی اپوزیشن اگر ایسا کرے تو سمجھ میں آتا ہے ۔ لیکن لبرل طبقہ اور انسانی حقوق کے کارکن اگر بغیر کسی وجہ کے تنقید اور الزام بازی کے اس طوفان کا حصہ بن جائیں تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔میں ان میں سے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو عقلیت پسند ہیں، سمجھ دار ہیں اور بہت محب وطن بھی ہیں۔ یہی بات اس معاملے کو زیادہ گھمبیر بناتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے زیادہ پڑھے لکھے اور ذمہ دار افراد بھٹکنا چھوڑ دیں گے اور بیانات اور تبصروں کا ویسا تجزیہ کریں گے جیسا کہ وہ ہونگے ، نہ کہ ویسا جیسا کہ کوئی چاہئے کہ ایسا ہونا چاہئے ۔ اور سب سے اہم یہ ہے کہ یہ سب فرسودہ ذہنیت کو تبدیل کرنے کی اجتماعی کوشش میں شامل ہوں گے اور اپنی انسانی اقدار کو فروغ دیں گے ۔ آج پاکستان کے سامنے بہت بڑے چیلنجز اور خطرات ہیں، بجائے اس کے کہ اس بات کے متعلق بحث میں پڑا جائے جو نہ کبھی کہی گئی اور نہ اسکے کہنے کا ارادہ تھا۔ ہم کب بڑے ہوں گے ؟