چنی گوٹھ میں تیز گام حادثے نے پوری قوم کو ہِلا کر رکھ دیا ہے ، 74 سے زائد لوگ آتشزدگی سے جاں بحق ہو چکے ہیں ، جبکہ اتنی ہی تعداد زخمیوں کی ہے ۔ ابھی ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بہت اچھا کیا کہ تمام مصروفیات ترک کر کے رحیم یارخان ہسپتال پہنچے ۔ زخمیوں کی عیادت کی اور اپنا ہیلی کاپٹر زخمیوں کیلئے وقف کر دیا ۔ انہوں نے رحیم یارخان میں برن یونٹ ، لیاقت پور میں ٹراما سنٹر بنانے کا بھی اعلان کیا ۔ بہاولپور برن یونٹ کے ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ شیخ زید فیز ٹو اور نشتر فیز ٹو کا کام فوری طور پر شروع کرایا جائے ۔وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کے اس بیان پر تعجب ہوا کہ میرے دور میں سب سے کم حادثات ہوئے ، جبکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں ۔ بہاولپور ریلوے اسٹیشن اور ملتان ریلوے اسٹیشن پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے ، جب حادثے کا شکار بچی کھچی بے نصیب ٹرین وہاں پہنچی ۔ وسیب کے لوگ اسٹیشنوں پر آئے ہوئے تھے اور مسافروں کو پُرسہ دیا ۔ ملتان میں تیز گام کے مسافروں نے شیخ رشید کے خلاف مظاہرہ کیا ، ان کا احتجاج ریل کے ناقص انتظامات اور طبی سہولتوں کی عدم دستیابی کے بارے میں تھا ۔ چنی گوٹھ سے رحیم یار خان اور بہاولپور کا فاصلہ قریباً برابر ہے ۔خان پور، لیاقت پور اور احمد پور شرقیہ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں اگر معمولی سی خراش والا زخمی بھی آجائے تو اُن کو رحیم یار خان یا بہاولپور ریفر کیا جاتا ہے، بہاولپور ، رحیم یار خان میں بڑے ہسپتال ہیں مگر ان میں برن یونٹ نہیں ہے جس کے باعث اموات میں اضافہ ہوا۔ان ہسپتالوں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جائے حادثہ پر ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان جمیل احمد جمیل، ڈی پی او امیر تیمور ریسکیو کے ساتھ پہلے پہنچے، خصوصاً چیف آف آرمی سٹاف کی ہدایت پر پاک فوج کے جوانوں نے امدادی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیا، آرمی ایوی ایشین کاہیلی کاپٹر بھی جائے حادثہ پر پہنچا اور زخمیوں کو بڑے ہسپتالوں میں منتقل کیا۔ پاک فوج کے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس نے بھی امدادی کارروائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن سوال حکومت کی بے حسی کا ہے کہ ہزار مطالبات کے باوجود بہاولپور اور رحیم یار خان میں برن یونٹ قائم نہیں ہو سکا۔ یہ بتاتا چلوں کہ 31 اکتوبر کو جہاں حادثہ ہوا اس سے تھوڑا آگے احمد پور شرقیہ میں اسی طرح کا ایک حادثہ عین عید کے روز 25 جون 2017ء کو آئل ٹینکر میں آگ لگنے کے باعث پیش آیا تھا، اس حادثے میں کم از کم دو سو سے زائد آدمی زندہ جل گئے تھے اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے،انہی دنوں میں نے لکھا تھا کہ زیادہ اموات بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں برن یونٹ نہ ہونے کی وجہ سے پیش آئیں، میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ملتان کے نشتر ہسپتال میں برن یونٹ سالہا سال سے منظور ہے ، عمارت بھی بن چکی ہے مگر حکومت کی تبدیلی اور فنڈز کی بندش سے برن یونٹ صحیح معنوں میں فنگشنل نہیں ہو سکا۔ تاریخی طور پر عرض کرتا چلوں کہ بہاول وکٹوریہ ہسپتال 1906ء میں قائم ہوا اور یہ جدید ترین سہولتوں کا ایسا ہسپتال تھا کہ اس کے پائے کا ہسپتال پورے ہندوستان میں نہ تھا اور اس میں اُس وقت بھی برن یونٹ موجود تھا مگر قیام پاکستان کے بعد وسیب سے یہ تمام سہولتیں چھین لی گئیں۔ سرائیکستان صوبہ محاذ کے رہنمائوں نے اپنے تعزیتی بیان میں درست کہا کہ اگر صوبہ ہوتا تو آج وسیب میں طبی سہولتوں کی حالت نا گفتہ بہ نہ ہوتی۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے حادثے کا ذمہ دار مسافروں کو ٹھہرایا ہے،حالانکہ تحقیقات کے بعد ایسی بات کرنی چاہئے، تحقیقات میں دہشت گردی کے عنصر کو بھی سامنے رکھا جانا چاہئے اور معلوم کرنا چاہئے کہ آج لگی یا لگائی گئی۔ ہندوستان میں ایک حادثہ ہوا تھا وزیر ریلوے لالو پرشاد نے استعفیٰ دے دیا تھا، یہ اُن کی اعلیٰ ظرفی تھی حالانکہ وہ خود براہ راست حادثے کا موجب نہ تھے لیکن انہوں نے کہا کہ چونکہ میں ریل کا وزیر ہوں اور میں حادثے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ جہاں تک سلنڈر کی بات ہے تو ریل کی کینٹین میں بھی سلنڈروں کا استعمال ہوتا ہے اس مسئلے کو بھی دیکھنا ہو گا مسافروں کی طرف سے سلنڈر ساتھ لے جانا اور ایک نام پر 77 ٹکٹوں کا اجراء قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر کسی مسافر نے دوسرے مسافر کو غلط بات سے روکا تو اُس نے غلطی ماننے کی بجائے اُس سے الجھنے میں اپنی بہادری سمجھی اور معذرت کے ساتھ یہ بات ہمارے تبلیغی بھائیوں میں زیادہ دیکھنے میں ملی ہے۔ ہمیں ہر صورت میں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ دین کے 90 فیصد معاملات کا تعلق انسانی حقوق سے ہے، 10 فیصد معاملات حقوق اللہ کے بارے میں ہیں کہ ہمارے آئمہ کرام کو حقوق العباد سب سے زیادہ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ریلوے کے اپنے ہسپتال کہاں گئے؟ ریلوے کے اپنے ریکارڈ کے مطابق ملک میں ریلوے کے 64 ہسپتال 21 زچہ بچہ مراکز ہیں مگر اب یہ صرف نام کے ہسپتال ہیں سٹاف کو تنخواہیں اور ہسپتالوں کو فنڈز جا رہے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہے، ریلوے کا تاریخی پس منظر دیکھا جائے تو بہت تابناک ہے، انگریز دور 1861ء میں ریلوے کا قیام عمل میں لایا گیا، قیام پاکستان کے بعد بھی ریلوے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان تقسیم رہی، ون یونٹ کے دور میں ریلوے کا نظام مشرقی و مغربی صوبے کے پاس رہا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ریلوے میں اصلاحات لائی گئیں، 30 اگست 1974ء کو ریلوے کی الگ وزارت قائم کی گئی۔ ستم یہ ہے کہ پوری دنیا میں ریل کے نظام نے ترقی کی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں ریل کی رفتار 300سے 400 کلو میٹر پہنچ چکی ہے مگر پاکستان میں ریل کا نظام تنزلی کا شکار ہے، بہت سے جنکشن اور ریلوے سٹیشن بند کر دیئے گئے ہیں۔ تیز گام چنی گوٹھ کا حادثہ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے، ماضی میں نوازشریف کے ساتھ ساتھ سعد رفیق بھی عمران خان اور شیخ رشید کی سخت تنقید کا نشانہ بنتے رہے، اب جبکہ عمران خان اور شیخ رشید برسراقتدار ہیں تو اُن کو عملی طور پر بہتری کا ثبوت دینا چاہئے۔ آخر میں یہ بھی کہوں گا کہ علاج کیلئے میاں نوازشریف کو رہا کیا گیا ہے اچھی بات ہے لیکن یہ رہائی آصف زرداری کو بھی ملنی چاہئے کہ وہ نوازشریف کے مقابلے میں زیادہ علیل ہیںاور سزا یافتہ بھی نہیں لیکن ان تمام باتوں سے بڑھ کر جیل میں قید ہر غریب انسان کو علاج کیلئے وہی ریلیف ملنا چاہئے جو نوازشریف کو ملا اگر غریب اور امیر کیلئے الگ الگ قانون ہوا تو ملک تباہ ہو جائے گا۔