سوچ رہا ہوں کہ کیا ہوگا ۔۔۔یہ سوچتے ہوئے بدقسمت اور بے نشاں قبر کے مکیں مغل شہزادے دارا شکوہ یاد آگیاجس نے 20مارچ 1615ء کو اجمیر شریف میں ہندوستان کے پانچویں شہنشاہ ،شہاب الدین محمد شاہ جہاں خرم کی دوسری اورچہیتی ملکہ ممتاز محل کے بطن سے جنم لیاتھا کہتے ہیں اس کی ولادت کے لیے شاہ جہاں نے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر جا کر منت مانی تھی اس کے دادا شہنشاہ جہانگیر نے بڑی چاہ سے اس کا نام’’محمددارا شکوہ‘‘ رکھاتھا داراشکوہ اپنے والد شاہ جہا ں کا بڑالاڈلا تھا۔ شاہ جہاں کو اسکی دوری برداشت نہ تھی وہ اسے ساتھ ساتھ رکھتا تھااس ساتھ او رمحبت نے ہی اسے مجبور کیا کہ وہ اسے اپنا جانشین مقررکر دے اس سے پہلے دارا کی زندگی اوراس کی بادشاہت کو لاحق خطرات کم کرنے کے لئے اپنی سلطنت کا بٹوارہ بھی کر لیاتھا۔ شاہ جہاں نے جان لیا تھا کہ اقتدار کے حصول کے لیے اس کے چاروں بیٹے اتاؤلو ہورہے ہیں اورچاروں مٹھیوں میں بارود لئے ایک دوسرے کو بھسم کرنے کے درپے ہیں ۔ادھرذرا سی چنگاری بھڑکی نہیںاورادھر ایک خوف ناک جنگ کاآغاز ہوا۔۔۔ اس نے یہ جنگ ٹالنے کے لئے اپنی سلطنت اپنے چاروںبیٹوں میں تقسیم کر دی شاہ شجاع کو بنگال ،اورنگ زیب کو دکن ، مرادبخش کو گجرات اور دارا شکوہ کے کابل ، ملتان دے دیا۔ملتان اپنا حصہ ملنے کے بعد دارا شکوہ کوکابل پہنچنا چاہئے تھا لیکن وہ شاہ جہاں کے ساتھ ہی رہا اور اس قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بھائیوں کے خلاف کان بھرتا رہا۔ قصہ کوتاہ جس جنگ سے شاہ جہاں بچنا چاہتا تھاوہ چھڑی اور ایسی چھڑی کہ خود شاہ جہاں اپنے بیٹے اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں گرفتار ہو کر بندی خانے جاپہنچا۔ دارا شکوہ شکست کھا کر بھاگ کھڑاہوااورنگزیب پیچھے لپکا ،لشکر بھیجے دارا شکوہ دہلی سے لاہورآگیااورنگزیب کے حکم پر سپاہ پیچھے لپکی وہ وہاں سے جان بچاتے ہوئے ملتان اور پھر سندھ آگیا،اس مشکل وقت میںوہ واقعہ بھی پیش آیا جس نے ٹھٹھہ کو ’’سوختہ گھاٹ‘‘ کی نشانی دی۔ مورخ لکھتے ہیں کہ داراشکوہ ٹھٹھہ پہنچا لیکن اسے یہ شہر پسند نہ آیا وہ ایک دروازے سے داخل ہوااور دوسرے باہر نکل گیا اور نکلتے نکلتے اپنے مصاحب قاضی ابراہیم ٹھٹھوی کو ٹھٹھہ کو نذرآتش کرنے کا حکم دے دیا جسکی تعمیل ہوئی اورآگ لگا دی گئی داراشکوہ وہاںسے نکلا اور جان بچاتابھاگتا پھرالیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے اورنگزیب نے اسے جاہی لیا۔ پھر منظر یہ تھا کہ 1659 میں دارا شکوہ کو اس کے ایک قابل اعتماد ساتھی ملک جیون نے پکڑوا کر دہلی بھجوادیا۔ جس کے بعد اورنگزیب نے اپنے بھائی اور اس کے 14 سالہ بیٹے سفر شکوہ کو ستمبر کی امس بھری گرمی میں چیتھڑوں میں لپیٹ کر خارش زدہ ہاتھی پر بٹھا کر دہلی کی سڑکوں پر چھوڑ دیا۔پیچھے برہنہ تلوار لئے سپاہی چل رہاتھا جسے حکم تھاکہ اگر دارا نے بھاگنے کی کوشش کی تو گردن ماری دی جائے۔، اطالوی مؤرخ نکولائی مانوچی نے اپنی کتاب ’’اسٹوریا دو موگور‘‘ میں لکھتا ہے کہ دارا کی موت کے دن اورنگزیب نے اس سے پوچھا فرض کرو اگر ہمارے کردار تبدیل ہو جائیںمیں تمہاری جگہ اور تم میری جگہ کھڑے ہوتو کیا کرو گے؟ دارا نے جواب دیا کہ وہ اورنگ زیب کے چار ٹکڑے کر کے دلی کے چار وںدروازوں پر لٹکوادے گاجس کے بعد داراشکوہ کی گردن ماردی گئی۔ سوچ رہا ہوں کہ کیا اب یہاں ہلاکو خان اورخلیفہ معتصم باللہ کی کہانی دوہرائی جائے گی کوئی ہلاکو خان کی طرح غٖضبناک ہو کر خلیفہ معتصم باللہ کو نمدوںمیں لپیٹ کر زمین پر پھینکے گا اوربدمست گھوڑے دوڑوادے گا؟آخر کیا ہوگا اور کیا ہوسکتا ہے ؟ لیکن اس سے پہلے کوئی بتائے گا کہ پاکستان میں جمہورئت کی بساط لپیٹ کر بادشاہت کا اعلان کردیا گیا ہے۔ تمام اختیارات سمٹ کر ’’ظل الٰہی‘‘کی ذات میں آگئے ہیں۔ آئین دستور کی کتاب متروک قرار دے کرکسی طاق میں رکھ دی گئی ہے۔ کیااب کسی ’’بادشاہ سلامت‘‘ کے اشارہ ء ابرو پر تنو مند جلا د کی تلوار حرکت میں آیا کرے گی ،انگلی کے اشارے سے بندی خانوں کے دروازے کھلیں گے مخالفین کو باغی قرار دے کر مشکیں کستے ہوئے قید خانوں میں ڈالاجائے گایاجائیداد کی قرقی ہوگی۔ کچھ بعید نہیں بیرون ملک سے درآمد کئے گئے شیروں کے سامنے مخالفین کو پھینکا جائے ۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے میلسی کے جلسہ ء عام اور کراچی جلسہ سے خطاب میں جو انداز بیاںاختیار کیا اسے جانے دیجئے اگر کسی کو غلط فہمی تھی کہ کپتان صاحب بدل گئے ہیں تو وہ دور ہوگئی۔،عمران خان صاحب جیسے کنٹینر پر تھے ویسے ہی وزارت عظمٰی کی مسند پر ہیں۔ رتی بھر فرق نہیں آیا اس پر کیا بات کیجئے میں تو سوچ رہا ہوں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا اور جس انجام سے ڈراتے ہوئے اپنے عزائم کا اظہار کیا وہ کیا ہوں گے ؟ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسی کھیل کا حصہ ہے جسے کھیلتے ہوئے وہ بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچے تھے ۔یہ اسی دھرنے کی طرح ایک تحریک ہے جو عمران خان صاحب نے بپا کی تھی۔ چار ماہ کا دھرنا دیاتھا حکومت گرانے کے لئے اپنا سکھ چین تج دیا تھا۔ یہ سب جمہوری عمل کا حصہ تھا اور اب بھی ہے۔ تحریک عدم اعتماد غیر جمہوری ہے نہ وہ ظل الہٰی ہیں ۔وزیر اعظم بننے سے پہلے انہوں نے ایک طویل جمہوری جدوجہد کی کیا اس وقت کے وزرائے اعظموں نے انہیں کالا پانی بھیج دیا تھا؟ انہیں جلاوطن کیاتھا ؟ آخر وہ اس حد تک کیوں سیخ پا ہیں انہیں عوام نے تاحیات وزیر اعظم تو منتخب نہیں کیا وہ اچھے ہیں یا بھلے ہیں اس سے قطع نظر اقتدار کے اس کھیل میں ان کے مخالفین کو یہ چال چلنے کا حق ویسا ہی ہے جیسا انہیں تھا۔اس پر ایسا سیخ پاہونا سمجھ سے باہر ہے وہ جہاندیدہ انسان ہیں انہوں نے دنیا کا کون سا ملک نہیں دیکھ رکھا،ان کی عمر کا بڑا حصہ تہذیب یافتہ کہلائے جانے والے یورپی ممالک میں گزرا ہے وہ پاکستان میں اشرافیہ کے تعلیمی ادارے ایچی سن اور انگلینڈمیں دنیا کی بہترین یونیورسٹی آکسفورڈ کے فارغ التحصیل ہیں وہ ان خیالات کا اظہار کیسے کرسکتے ہیں کیا ان تعلیمی اداروں اور یورپ کے جمہوری معاشروں نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا!