وزیر اعظم عمران خان پر اتحادی اب بھی بھروسہ کرتے ہیں۔وہ کسی چور،ڈاکو،کرپٹ اور راشی سے اتم درجہ بہتر ہیں۔چند روز قبلسیاسی حالات میں اچانک ارتعاش آیا ۔اپوزیشن جماعتوں نے حکمران اتحاد کے خلاف نئی صف بندی کی۔یہ باتیںزبان زدعام تھیں۔ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔پی ٹی آئی کے اندر سے کسی اور کو چھ ماہ کے لیے وزیراعظم بنایا جا رہا ہے۔اسی بنا پرکچھ دنوں سے عجیب و غریب مماثلتیں، ناقابل فہم مشابہتیں،حیرت انگیز بھید اور نیندیں اڑا دینے والے خیالات ذہن میں آ رہے ہیں مگر حکومتی اتحاد نے سب دعوے جھٹلا دئیے۔ وسوسے ختم ہو گئے۔کوئی دو رائے نہیں، مہنگائی و بے روزگاری کی چکی میں پستے عوام کے شب و روز تلخ ہو چکے ہیں۔عوامی غم و غصہ برداشت سے باہر ہے۔ایسے مواقع کیلئے ہی فرمان رسولؐ ہے: کاد الفقران یکون کفرا۔ فقر و افلاس اور تنگدستی انسان کو مجبوراً کفر تک پہنچا سکتی ہے۔آج ویسے ہی حالات ہیں۔ غریب‘ فقیراور مفلس صبر و استقامت کی طاقت کھو ہو چکا ہے۔ ایسے ہی حالات تھے، جنہوں نے2008ء کے الیکشن میںمسلم لیگ (ق )کو صرف گھر کی سیٹوں تک محدود کر دیاتھا۔خلیل جبران نے کہا تھا :اگر تم بھوکے شخص کے سامنے گیت گائو گے، تو وہ کانوں سے نہیں پیٹ سے سنے گا۔امریکہ میں بھی مہنگائی کا 31سالہ ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ جوبائیڈن کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس 6.2 فیصد بڑھا ہے،جو 1990ء کے بعد زیادہ اضافہ ہے۔ امریکی حکومت مہنگائی تسلیم کرتی ہے۔ کنٹرول کرنے کے اقدامات بھی جاری ہیں مگر یہاں اقدامات نہیں،بیان بازی سے خلق خدا کے زخموں پر نمک پاشی کی جا رہی ہے۔ وزراء کا قصور نہیں،وہ جن محلات کی شہ نشینوں سے احوال دیکھتے ہیں۔وہاں سے جو حکمران جھانکتا ہے، اسے خوشحالی‘ قوسِ قزح کے بکھرتے رنگ اور آسودگی نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کور کمیٹی کے اجلاس میں وزراء سے کہا: عوام کو حکومتی اقدامات ‘فوائد و ثمرات سے آگاہ کریں۔مگرٹیم باہر نکل نہیں رہی۔ سوائے چند وزراء کے کوئی نظر نہیں آتا۔خلاصی کاتہیہ کر لیا جائے تو ایسے کاہل وزراء سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔جوش ملیح آبادی نے کہا تھا:جینا نہیں‘اب یہ جینے کی نقل ہے۔پاکستان بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔یہاں ہر شعبدہ باز معزز۔نجیب خور و زبوں حال۔ عمران خان کو صاف راستہ ملا تھا۔ اپوزیشن اپنی لوٹ مار چھپانے کے درپے تھی۔ہر کوئی الجھا ہوا تھا۔ کرپشن پر صفائیاں دی جا رہی تھیں۔ ایسے حالات میں اچھی ٹیم کی ضرورت تھی جو سیاسی خلا پر کرنے کی صلاحیت رکھتی۔عوامی ہمدردیاں ساتھ تھیں لیکن اناڑی ٹیم فائدہ نہ اٹھا سکی۔ اسی بنا پر سیاستدان مٹ جاتے ہیں، کیونکہ وہ لمحہ موجود کی سطحیت میں جیتے ہیں۔ ایک الیکشن میں مال اکٹھا کرنے کے بعد اسے ہضم کرنے کا سوچتے ہیں۔ اہل علم زندہ رہتے ہیں، نسل نو کو سنوارتے ہیں۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو دبائو میں لانے کیلئے کوشاں۔ امریکہ اڈے لینے کا خواہاں ہے تاکہا افغانستان میں اپنی شکست کو مٹا سکے۔ پاکستان اب افغانیوں کو ناراض کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔80ہزار لوگوں کا خون بہا۔ملک کے درو دیوار لرز چکے۔عام طالبان اب بھی ہم سے شاکی ہیں۔ عشروں سے وہ عالمی طاقتوں سے لڑ رہے ہیں۔ وہ اس لڑائی کا قصوروار پاکستان کو گردانتے ہیں۔ کہانی طویل ہے اور پیچیدہ بھی ‘آسانی سے سمٹ نہیں سکتی۔ بالفرض ان حالات میں اگر اپوزیشن ان ہائوس تبدیلی کر لیتی ہے،کیا وہ حالات سدھارنے میں کامیاب ہو گی؟کبھی نہیں، کبھی نہیں۔(ن) لیگ کے کچھ لوگ برطانیہ گئے تھے۔ چھوٹے میاں صاحب پابندی کے باعث خود تو جا نہ سکے ۔ان کے پیغام رساں نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی ہے۔ بڑے بھائی قائل ہو چکے ہیں۔پنجاب میں آزاد امیدواروں اور مسلم لیگ (ن )کے ناراض ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں بھی جاری ہیں۔پیپلز پارٹی بھی پنجاب میں متحرک ہو چکی ہے مگر اتحادیوں ایم کیو ایم، (ق) لیگ،جی ڈی اے اور باپ نے امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔کرسی کا نشہ بڑا ظالم ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف ان ہائوس تبدیلی پر تو راضی ہو چکے ہیں،مگر چھوٹے بھائی کو وزیر اعظم بنانے سے انکاری۔ انہیں دو ریٹائر حضرات نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ان کی سزا ختم کی جا سکتی ہے۔ پاکستان بار کونسل نے بھی تاحیات نااہلی کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب وہ مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ خاصے پر امید ہیں، چاہتے بھی ہیں، چوتھی بار ان کے سر پر وزارت عظمیٰ کا ہما بیٹھے۔ مگر ان کی بھارت نوازی، سلامتی کے اداروں سے لڑائی کا کیا بنے گا؟ حکومت نے بڑا ظلم کیا۔ دستیاب وسائل کو بروئے کار لائی ،نہ بے جا اخراجات میں کوئی کمی کی۔ خزانے کا منہ کھول کر خلق خدا کو ریلیف دیا جا سکتا تھا۔پنجاب میں چھ سات وزراء کے علاوہ عوام کو کسی کا نام بھی نہیں آتا کیونکہ مراعات لینے کے علاوہ انھوں نے ڈھنگ کا کوئی کام ہی نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو کم از کم اپنی کابینہ کو متحرک کرنا چاہیے تھا۔عوامی خوف سے کوئی مجمع عام میں آنے کو تیار نہیں۔حکومت اگر مہنگائی کنٹرول کرے، تو اسے اپوزیشن اتحاد سے ذرا برابر بھی خطرہ نہیں۔عوام اب بھی اپوزیشن کی زبان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔35برس وہ ان سے دھوکہ کھا چکے۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے:لا یلدغ المومن من حجر واحد مرا تین۔مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا۔ اپوزیشن کے سینکڑوں مرتبہ ڈسے عوام۔ چوکنا، بیدار مغز‘ ہوشیار اور محتاط ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں مہنگائی کا کہہ کر حکمران بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ سو فیصد مہنگائی میں40فیصد حکمرانوں کی غفلت ہے۔ لاپروائی‘ کم علمی ‘ فرائض میں غفلت پر قابو پا کر ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے۔دولت کا نشہ انسان کو سرکشی میں مبتلا کر دیتا ہے ، تو حد سے زیادہ راحت، آسائش معصیت کے اندھیروں میں پھینک دیتی ہے۔ مالداری اور افلاس دونوں کا اعتدال گمراہی وضلالت سے بچا سکتا ہے۔ یاد رکھیں جام کمال بہانہ تھا،سنجرانی نشانہ ہے جس کے بعد ٹھکانہ پکے پھل کی طرح گود میں آ گرے گا۔ مشترکہ اجلاس اور سینٹ میں شکست کے بعد اپوزیشن اب بھی تحریک عدم اعتماد کیلئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے،لہٰذا پنجاب اور مرکز کے وزراء سے لیکر قائمہ اور پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہوںتک، ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرے۔ خودکفیل ملک میں گندم کا بحران‘ سبزیوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے مہنگائی کی دیوار کھڑی کر رکھی ہے۔ان حالات میں کون دیوانہ دیوار پھلانگ کر اقتدار کو گلے لگائے گا؟ ڈیڑھ برس کا اقتدار اگلی باری پر بھاری پڑ جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن تو مستقبل کی منصوبہ بندی میں مگن ہیں، اصل نقصان (ن) لیگ اور پی پی کا ہوگا۔ پی ٹی آئی نے ایک اور انتخابی منشور کا وعدہ ایفا کر دیا ہے۔ اوورسیز پاکستانی ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔انھیں ووٹ کی اجازت دینا خوش آئند ہے۔