اچھی بات ہے کہ دگرگوں معاشی حالات سے نکلنے کے لیے حکومت نے سخت اور ٹھوس اقدامات کا فیصلہ کرلیا ہے، جیسے کہ وزیراعظم ہائوس میں رکھی گئی چھ بھینسوں کی نجکاری کا طے ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے ایک رہنما نے بالکل بجا کہا کہ یہ بھینسیں قوم کے پیسے سے خریدی گئی تھیں ۔مناسب ہے کہ ساہیوال کے اس زمیندار کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جس نے یہ بھینسیں ماضی کے وزیراعظم کو تحفے میں پیش کی تھیں۔ اس سے پوچھا جائے کہ اس نے یہ بھینسیں کیسے خریدیں، منی ٹریل مانگی جائے، نہ دے سکے تو قید و جرمانہ کی سزا دی جائے۔ اس سے ’’نج کاری‘‘ کی رقم بڑھ جائے گی اور قومی خزانہ میں مزید اضافہ ہوگا جو وزیراعظم کے بقول خالی ہے، اتنا زیادہ خالی کہ انہیں کہنا پڑا، ملک کیسے چلائیں، پیسے ہی نہیں ہیں۔ اس سے پہلے حکومت وزیراعظم ہائوس کی اضافی، غیر ضروری گاڑیوں کی نجکاری کرنے کا فیصلہ بھی کر چکی ہے۔ اگرچہ خاصے دن گزر گئے، ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ نجکاری ہوئی یا نہیں ہو پائی، ہوئی تو کتنی رقم ملی۔ بعض ہانکنے والوں نے یہ دور کی ہانکی ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر کھٹارا ہیں۔ کل ہی ایک معزز کالم نویس کے نوشتے پر نظر پڑی۔ لکھا تھا یہ گاڑیاں تو سکریپ ہیں، کون خریدے گا، کتنے میں خریدے گا۔ ظاہر ہے اس نے مبالغہ آرائی کی۔ حقیقت آرائی کرتا تو سکریپ نہ کہتا، تقریباً سکریپ کہتا۔ تقریباً اور غیر تقریباً میں فرق تو ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کو جو اچھی اور نئی حالت کی گاڑیاں تھیں، وہ حکومت نے چن کر پہلے ہی الگ کرلی تھیں۔ ٭٭٭٭٭ وزیراعظم کے اس فرمودے پر بھی طرح طرح کی حاشیہ آرائی ہورہی ہے کہ ملک کیسے چلائیں، پیسہ ہی نہیں ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں جو اربوں ڈالر خود حال ہی میں سٹیٹ بینک نے تسلیم کئے ہیں، ان کا کیا ہوا، یعنی وہ کہاں گئے۔ پھر اسی حکومت نے مانا کہ پچھلی حکومت نے جو ٹیکس ایمنسٹی سکیم لاگو کی تھی، اس کے تحت سینکڑوں ارب روپے کے ٹیکس وصول ہوئے، وہ رقم کہاں گئی۔ بعض بے رحم عناصر کا کہنا ہے کہ لگتا ہے اس رقم کو کہیں اور ٹھکانے لگانے کا ارادہ ہے اور جب ٹھکانے لگ جائے گی تو کہا جائے گا، ہم نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ خزانہ خالی ہے۔ لیکن یقین مانئے، یہ بے رحم عناصر کی سراسربدظنی ہے۔ اتنی رقم کو کہیں اور ٹھکانے لگانے کا ارادہ نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد مثلاً سال بعد یا مثلاً دو سال بعد یا مزید مثلاً پانچ سال بعد لوگ پوچھیں گے کہ خان صاحب، یہ آپ نے ملک کا کیا حال کردیا، یا یہ پوچھیں کہ یہ کیسا ملک چلایا تو مناسب اور تسلی بخش جواب موجود ہوگا کہ بھئی، پیسہ ہی نہیں تھا، ملک کہاں سے چلاتے، یہ حال نہ کرتے تو کون سا والا حال کرتے۔ گویا یہ سیاسی پیش بندی ہے، امریکہ والے اسے ’’پری ایمپٹیو ایکشن‘‘ کہتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ کراچی میں ان کے زبردست پروٹوکول پر وہ خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے اتنا زیادہ پروٹوکول دینے سے منع کیا تھا۔ حکومت والے کتنے ظالم ہیں، صدر کی بات بھی نہیں مانتے، منع کرنے کے باوجود اتنا بڑا پروٹوکول دے دیتے ہیں۔ خیر، صدر صاحب دل گرفتہ ہوں نہ خواہ مخواہ کے پچھتاوے میں آئیں۔ کراچی والے بہت خوش ہیں۔ عشروں سے اتنا بڑا پروٹوکول دیکھنے کو ترس گئے تھے۔ وہ تو حکومت کو اس ترسا ہٹ کے دور کرنے پر دعائیں دے رہے ہیں۔ لوگ تو اس روز اتنا خوش تھے کہ اس روز آس پاس کی سڑکوں پر کیا آدمی، کیا پتھر، سب مارے خوشی کے تھم گئے تھے، زندگی کی نبض مارے جوش کے رک سی گئی تھی۔ ٭٭٭٭٭ صدر تو صدر ہیں، اسلام آباد کے بلیوایریا والوں نے ایک وزیر کا پروٹوکول بھی دیکھا۔ گاڑیوں کا ایک جلوس تھا جس کے شکوہ اور عظمت نے حاسدوں کے دل کباب کردیئے تھے۔ وزیر موصوف بزبان حال اس طرح کی تصویر بنے ہوئے تھے کہ تو وزیر آفریدی، پروٹوکول آفریدم گاڑیاں تو تھیں ہی، سرکاری گن مین الگ بہار دکھا رہے تھے اور بہار پر مزید بہار یہ تھی کہ قبائلی لباس میں ملبوس نجی ہتھیار بندوں کے دستے الگ تھے۔ وہ گاڑیوں پر بھی تھے اور گرین بیلٹوں اور ادھر ادھر کی گزرگاہوں پر بھی موجود تھے۔ کچھ کھڑے تھے، کچھ تشریف فرما تھے۔ لوگ ایک بار تو گھبرائے کہ یا خدا، کیا طالبان کا قبضہ ہوگیا، پھر پتہ چلا کہ نہیں بھئی، یہ تو اہتمام شہریاری ہے۔ اس پر اطمینان ہوگیا، گھبراہٹ دور ہو گئی۔ ادھر پنجاب میں بھی پروٹوکول کے چرچے ہیں۔ کیوں نہ ہوں بھئی، تبدیلی آئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ امیر جماعت اسلامی نے بیان دیا ہے کہ لوٹ کھسوٹ کا نظام برداشت نہیں کرسکتے۔ بڑے لوگ مصروف ہوتے ہیں، اکثر نیند پوری نہیں کرپاتے، چنانچہ بعض اوقات کھڑے کھڑے اونگھ آ جاتی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ سراج الحق نے بھی یہ بیان کھڑے کھڑے دیا ہے ورنہ ان سے بڑھ کرکون جانتا ہے کہ لوٹ کھسوٹ تو سال گزشتہ کے جولائی ہی میں ختم ہو گئی تھی یعنی سال سے اوپر دو مہینے ہو گئے۔ یاد ہو گا جب پانامہ کیس کا فیصلہ سنائے جانے میں مہینہ بھر باقی تھا۔ فیصلہ پہلے ہی آسمانوں پر لکھا جا چکا تھا، شیخ رشید، اعتزاز اور خان صاحب سمیت ملائے اعلیٰ کے کئی رازدان یہ راز آشکار کر چکے تھے کہ سراج الحق کا ایک بیان اخبارات کی زینت بنا تھا۔ فرمایا تھا، پانامہ کے چوروں کو سزا ہوتے ہی ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اور وہی ہوا، گزشتہ جولائی میں کرپشن کا نام مٹ گیا اور لوٹ ما رکا نشان بھی۔ اب تو ریاست مدینہ بھی مہینے بھر سے قائم ہو چکی۔ اسے برداشت فرمائیں۔ ٭٭٭٭٭ سراج الحق صاحب نے مزید فرمایا، حکومت عوام کو نچوڑنے کی پالیسی ختم کرے۔ کیسا نچوڑنا بھئی، فی الحال تو عوام کو دھونے کا عمل جاری ہے۔ جب دھوئے جا چکیں گے، پھر نچوڑے جائیں گے۔ اور یاد رہے، عوام بلی نہیں ہوتے۔ بلی دھوئے جانے پر بخیروعافیت رہتی ہے، نچوڑنے جانے پر مرتی ہے اور چونکہ عوام بلی نہیں ہوتے، اس لیے جب نچوڑے جائیں گے، تب بھی انہیں کچھ نہیں ہوگا، بدستور شاد و آباد رہیں گے۔ آپ عوام کی فکر چھوڑیئے، وفاقی اور پنجاب کا بینائوں میں توسیعائوں کے نظارے لیجئے اور من خورسند کیجئے۔ پنجاب کابینہ تو پہلے ہی جمبو ہونے کے ریکارڈ توڑ چکی، 45 کا ہندسہ ٹاپ چکی، مزید توسیعات کے روشن امکانات ہیں۔ وفاقی کابینہ میں چوتھی توسیع سنا ہے عاشورہ گزرنے کے بعد ہوگی۔ ویسے بھی سادگی کا تقاضا یہی تھا کہ جو بھی کرنا ہے، ایک دم مت کرو، قسطوں میں کرو۔ ٭٭٭٭٭ ایک چینل پر ٹکر چلتے دیکھا، صاحب نے تو ریلیف کا وعدہ کیا تھا، اتنی مہنگائی کیوں کردی، ریلیف کے دعوے کہاں گئے۔ ارے بھائی ٹکر والے۔ مہنگائی جب بھی ہو، کسی نہ کسی کو تو ریلیف ملتا ہی ہے۔ خان صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ ریلیف دوں گا، یہ صراحت تو نہیں کی تھی کہ کسے دوں گا۔ ریلیف قسمت والے کو ملتا ہے اور اکثر چھپر پھاڑ کر ملتا ہے۔ دیکھئے، خان صاحب کی حکومت آتے ہی چینی کی قیمت کتنے روپے فی کلو بڑھی، نتیجے میں ترین بھائی کو بیٹھے بٹھائے کتنے ارب کا فائدہ ہوگا، بالکل مفت میں۔ چار آنے کی ہینگ لگی نہ دو آنے کی پھٹکری۔ اسی طرح کھاد فیکٹری والوں کے چھپر بھی کتنے بے محابا پھٹے۔