سول ملٹری تعلقات میں حالیہ تنائو زیادہ عرصہ برقرار رہنا چاہیے نہ رہ سکتا ہے۔ معاملے کا اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے بشمول مسلم لیگ(ن) ‘پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام انتہائی ذمہ داری‘سمجھداری اور وضعداری سے کام لیا‘حساس معاملے کو عوامی بحث و تمحیص کا موضوع نہیں بنایا۔ریگولر میڈیا کودرون پردہ جاری ہنگامے سے وفاقی وزیر اطلاعات چودھری فواد حسین نے محتاط انداز میں آگاہ کیا اور کابینہ و تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کو معلومات وزیر اعظم عمران خان نے فراہم کیں۔قانونی تقاضوں کے مطابق سمری کی تیاری اور نوٹیفکیشن کے اجراء کے لئے کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے‘الیکٹرانک ذرائع استعمال نہ کئے جائیں اور ایم ایس برانچ‘ وزارت دفاع اور وزیر اعظم آفس کے مابین نامہ و پیام‘کاغذات کی ترسیل‘ کے لئے نقل و حمل کا فرسودہ روایتی طریقہ کار بھی اختیار کیا جائے تو ایک دن درکار ہے مگرنو دس دن بیت گئے‘بات بن نہیں پا رہی‘سرائیکی میں کہتے ہیں ؎ جے رٹھڑا یار منیج پووے وت چس نئیں رہندی اوہا (اگر خفا دوست مان بھی جائے تو دوستی میں پہلے والا مزا اور اعتماد نہیں رہتا) ایسی بے احتیاطی بلکہ حماقت کے بعد یار لوگ سول بالادستی کا رونا روتے ہیں۔مریم نواز شریف نے حسب عادت اسے ’’سلیکٹڈ‘‘ کی نالائقی قرار دیا‘ ساتھ ہی جادو ٹونے‘جنتر منتر کا موضوع چھیڑ دیا‘لوگ حیران کہ اس خالص آئینی‘ قانونی اور عسکری فیصلے میں جادو ٹونا‘ جنتر منتر کہاں سے آ گیا؟۔ایک واقف حال دوست سے جاننا چاہا تو بتایا کہ اشارہ موجودہ حکمرانوں کی توہم پرستی کی طرف ہے۔مجھے یقین ہی نہ آیا کہ اپنی ہر عوامی تقریر کا آغاز ایاک نعبدو ایاک نستعین سے کرنے والا اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے‘نہ مانگنے والا عمران خان بھی توہم پرست ہو سکتاہے؟ البتہ روحانیت سے لگائو اور روحانی شخصیات سے فیضیاب ہونے کی عادت پرانی ہے۔ عمران خان نے اپنی کتاب’’میں اور میرا پاکستان‘‘ میںایک صوفی منش بزرگ بشیر احمد کا تذکرہ کیا جو غیر معمولی روحانی اوصاف کے مالک اور مستقبل شناسی میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔2013ء میں عمران خان حادثے کا شکار ہوئے اور ماہر طبیبوں نے انہیں آپریشن کا مشورہ دیا تو ایک روحانی شخصیت بابا عرفان الحق نے شوکت خانم ہسپتال اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال کے ماہرین کی رائے کے برعکس عمران خان کو آپریشن نہ کرانے پر آمادہ کیا اور طبی ماہرین حیران رہ گئے‘ جب آپریشن کے بغیر وہ شفایاب ہوئے۔ صوفیا اور روحانی شخصیات سے حکمرانوں کی عقیدت دو چار برس کی بات ہے نہ نصف صدی کا قصّہ‘اولیاء کرام اور حقیقی صوفیا کے تصرف و کرامات سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا ؎ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں برصغیر میں مگر عامتہ الناس اور حکمرانوں کی عقیدت و محبت کا شعبدہ بازوں اور روحانیت کے جعلی علمبرداروں نے خوب فائدہ اٹھایا‘ خوشامد اور توہم پرستی دو ایسے مرض ہیں جن سے ہمارے کم ہی حکمران بچ پائے افزائش بھی سب سے زیادہ طاقت و اقتدار کے ایوانوں میں ہوتی ہے۔ اپنے مستقبل سے خائف اور خطرہ فردا میں مبتلا حکمران ہر دور میں پیروں ‘فقیروں ‘ دست شناسوں‘ نجومیوں اور جوتشیوں کی تلاش میں رہے اور ہنر مندوں نے اس کمزوری کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ذوالفقار علی بھٹو سیکولر مزاج‘ترقی پسند اور روشن خیال حکمران تھے مگر مستقبل کا حال جاننے کے لئے بے چین رہتے‘لاہور کے ایک بزرگ حکیم فاضل ظہیر مرحوم نے خلاف مزاج پیش گوئی کی تو موصوف کے جیالوں نے ان کا مطب جلا دیا‘ پیش گوئی مگر حرف حرف سچ ثابت ہوئی‘مولانا کوثر نیازی مرحوم ایک کالم میں پورا واقعہ بیان کر چکے ہیں‘ گوالمنڈی کے جم پل‘میاں نواز شریف اور آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ بے نظیر بھٹو ’’ایک ہی پیر کے مریدپیر بہن بھائی‘‘ تھے‘دونوں پیر صاحب دھنکا شریف کے عقیدت مند اور حصول فیض کے لئے مانسہرہ کے قصبہ ’’لساں نواب‘‘ کے قریب براجمان پیر صاحب سے چھڑیاں کھانے اکثر جایا کرتے‘نام تو بزرگوں کا رحمت اللہ دیوانہ بابا تھا مگر شہرت انہیں بابا دھنکا کے نام سے ملی ‘بابا دھنکا ایک چھڑی لے کر بیٹھتے اور عقیدت مندوں کی تواضع کرتے جسے چند چھڑیاں پڑ جاتیں وہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا خوشی سے پھولے نہ سماتا‘میاں صاحب اور بی بی کے علاوہ میر ظفر اللہ جمالی اور غلام مصطفی جمالی بابا دھنکا کی چھڑی سے تواضع کرانے والوں میں شامل ہیں‘محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں پیر ابراہیم عرف پیر ابرا کو بھی شہرت ملی‘محترمہ اقتدار سے محروم ہوئیں تو پیر صاحب بھی منظر سے غائب ہو گئے ع اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے آصف علی زرداری صدر بنے تو لاہور کے پیر اعجاز ایوان صدر کے مکین ہوئے اور آخری دن تک جناب صدر کی روحانی سرپرستی فرماتے رہے‘پیر اعجاز صاحب سے ملاقات کا شرف مجھے بھی حاصل ہے اور یہ موقع برادر عزیز مظہر برلاس نے فراہم کیا کہا جاتا ہے کہ ہر مشکل وقت میںچین سموکر پیر اعجازصاحب زرداری صاحب کو پہاڑوں سے دور اور سمندر کے قریب چلے جانے کا مشورہ دیتے اور آئی بلا ٹل جاتی ‘واللہ اعلم بالصواب۔عمران خان اگر کسی روحانی شخصیت کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں تو تعجب کی بات نہیں‘یہ ہمارے حکمرانوں کی عادت ہے۔ سید سرفراز شاہ صاحب کہا کرتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ پر ہم ایمان لاتے ہیں بھروسہ نہیں کرتے‘‘ہمارے حکمران اگر اللہ تعالیٰ کی ذات‘عطیہ خداوندی اہلیت و صلاحیت اور ملک و قوم کے لئے اپنی خدمات پر بھروسہ کریں تو انہیں مستقبل کا حال معلوم کرنے اپنی ٹیم کی وفاداری جاننے کے لئے کسی روحانی شخصیت کا سہارا لینا پڑے نہ نجومی پر انحصار اور نہ دست و شناس و ماہر فلکیات پر بھروسہ‘بے چارے نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی مہلت ختم ہو جائے آزمائش نازل ہوتو کوئی ہونی کو انہونی میں نہیں بدل سکتا ؎ ولایت‘پادشاہی‘ علم اشیا کی جہاں گیری یہ سب کیا ہیں‘فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں براہیمی ؑ نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں (اقبالؒ)