کورونا وبا کے بعد چین مشرق ِوسطی میں داخل ہوچکا ہے۔ فوجیں لیکر نہیں بلکہ اپنی معاشی طاقت کے بل پر۔ چین نے خلیجی ممالک‘ مصر‘ ایران اور عراق کو بڑے پیمانے پر دوائیں‘ طبی سامان اور اپنے ماہرین بھیجے۔ اسکے برعکس امریکہ نے یہ کام نہیں کیا حالانکہ وہ بیشتر عرب ملکوں کا پرانا اتحادی ہے اور ان ملکوں میںاسکے فوجی اڈے قائم ہیں۔چین نے امریکی فوجی طاقت کے مقابل آنے کی بجائے معاشی میدان میں عرب ‘خلیجی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ اسوقت چین اور عراق کے درمیان تجارت عروج پر ہے۔چین اس عرب ملک کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ چین کا مفاد یہ ہے کہ عرب ممالک اسکو پیٹرولیم مہیا کرسکتے ہیں۔ چین کی ایک ارب تیس کروڑ سے زیادہ آبادی ہے ۔ اسی اعتبار سے اسکی تیل کی ضروریات بہت زیادہ ہیں۔ تیل کے بدلہ میں چین عرب ملکوں میں صنعتی کارخانے لگا رہا ہے۔ بندرگاہیں تعمیر کررہا ہے۔ ریلوے کا نظام بنا رہا ہے۔ چین کا کمال یہ ہے کہ اس نے دو مخالف ملکوں سعودی عرب اور ایران کے ساتھ بیک وقت اچھے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ چین نے سعودی عرب کو ایٹمی پروگرام بنانے میںمدد فراہم کی ہے۔ جب سے ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا ہے سعودیہ کو اپنی سلامتی کے خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔ اسکے جواب میں اس نے بھی ایٹمی پروگرام پر کام شروع کردیا۔گو امریکہ اور سعودی عرب بہت قریبی اتحادی ہیں لیکن ایٹمی پروگرام میں سعودی عرب کو چین سے ہی تعاون حاصل ہوا۔ چین نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ڈرون طیارے بھی فروخت کیے ہیں۔ چین کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی ہوآوے اپنے فائیو جی نیٹ ورک کا سب سے زیادہ کاروبارعرب ملکوں میں کررہی ہے۔امریکہ نے عرب ملکوں پر دباؤ بھی ڈالا کہ چین سے قربت نہ بڑھائیں لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی اتنے عملیت پسند ہیں کہ وہ عرب ممالک‘ ایران اور اسرائیل سب کے ساتھ ملکر کام کررہے ہیں۔وہ ان ملکوں کے ایک دوسرے سے اختلافات کو اپنی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دیتے۔چین کے اسرائیل سے بھی دوستانہ تعلقات ہیں جہاں اس نے بندرگاہیں بھی لیز (پٹے) پر حاصل کی ہوئی ہیں۔عرب ممالک کے چین سے بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں پیٹرولیم کی اہمیت رفتہ رفتہ کم ہوتی جارہی ہے۔ توانائی کے حصول کے لیے نئی سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجیز آگئی ہیں۔ پندرہ بیس سال بعد عرب ممالک کو معاشی وسائل کے لیے تیل کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی پر انحصار کرنا ہوگا۔تجارت کو فروغ دینا ہوگا۔ مشرق وسطی کے ممالک معاشی میدان میںچین کو امریکہ سے زیادہ قابل اعتماد ساتھی سمجھتے ہیں۔امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے دوست اور اتحادی ممالک پر دباو ٔڈالے رکھتا ہے۔ کبھی جمہوریت کے نام پر اور کبھی انسانی حقوق کے نام پر۔ حالانکہ خود امریکہ دنیا بھر میں بربریت پر مبنی اقدامات کرتا رہتا ہے۔ جس طرح اس نے عراق کو برباد کیا اور لاکھوں لوگوںکی ہلاکت کا باعث بنا یہ تو سامنے کی بات ہے۔ گوانتا نامو بے کی جیل میں مقدمہ چلائے بغیر برسوں تک امریکہ نے قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا لیکن اس پر امریکہ کا ضمیر سویا رہا۔سب سے بڑھ کر امریکہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتا آرہا ہے۔ اسے اربوں ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے ۔جدیدترین جنگی سامان مہیا کرتا ہے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطینی اپنے وطن سے محرو م ہوگئے ۔ انہیں وہ تھوڑا بہت حق بھی نہیں مل سکا جسکا اقوام متحدہ نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ اسرائیل کا ہوّا کھڑ اکرکے امریکہ نے کمال چالاکی سے عربوں کو لُوٹا ہے۔ یہ عرب ممالک اسرائیل کے خطرہ کے پیش نظر امریکہ سے کھربوں ڈالر کا جنگی سامان خرید چکے ہیں ۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ مشرقِ وسطیٰ کا پولیس مین ہے۔ اسرائیل اسکا ایک غیر اعلانیہ صوبہ ہے جو عرب ممالک کو قابو میں رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چین کو مشرق وسطیٰ کے پولیس مین بننے کا کوئی شوق نہیں۔ اسکے ان ملکوں میں فوجی اڈے نہیں۔تاہم چین کے مقاصد معاشی اور تزویراتی(اسٹریٹجک) دونوں ہیں۔ سب سے اہم تو چین اور ایران کے درمیان ہونے والا پچیس سالہ معاہدہ ہے جسکے تحت چین ایران میں چار سو سے چھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔اسکے بدلہ میںایران قدرے کم قیمت پر چین کو مسلسل تیل مہیا کرتا رہے گا۔معاہدہ کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کریں گے‘ ساتھ ملکر ریسرچ اور ہتھیاروں کی تیاری پر کام کریں گے۔چین اور ایران کی افواج پہلے سے ہی اکٹھے ٹریننگ کرتی آرہی ہیں۔ ایسے وقت میں جب امریکہ اور یورپ نے ایران کا ناطقہ بند کیا ہو اتھا۔ اس پر طرح طرح کی گلا گھونٹ دینے والی پابندیاں لگادی تھیں۔ چین کی ایران کے ساتھ شراکت نے ایران کی کشتی کو مکمل طور پر ڈوبنے سے بچا لیا۔ ایران کی امریکہ کے ساتھ سودے بازی کی پوزیشن بہتر ہوگئی۔صدر ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر کیے گئے کثیر ملکی معاہدہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور ایران پر سخت معاشی پابندیاں لگا دی تھیں۔ نئی صورتحال میں صدرجو بائیڈن نے اس معاہدہ کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات شروع کردیے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ امریکہ اس کثیر ملکی معاہدہ کو بحال کردے گا۔ اس کا ایک فوری فائدہ تو ایران کو یہ ہوگا کہ اسے امریکہ میں منجمد نوّے ارب ڈالر مل جائیں گے۔یہ خطیر رقم ایران کی معاشی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دے گی۔چین کے مشرق وسطیٰ میں داخل ہونے کے بعد اس خطہ کی علاقائی سیاست میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ سعودی عرب کو بھی یہ احسا س ہوگیا ہے کہ ایران کو تنہا کرنے کی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کا ملک ایران سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ ایران نے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ سعودی عرب نے یمن کی جنگ بند کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یہ بہت اہم پیش رفت ہے۔ اگر سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری آگئی تو اسکے پورے خطہ اور پاکستان پر مثبت اثرات ہوں گے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان باقاعدہ بڑے پیمانے پر تجارت ہوسکے گی۔ معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔خطہ میں امن اور استحکام آئے گا۔