امریکہ اپنے اتحادیوں کی مدد سے روس کے گرد فوجی حصار کھینچتا جارہا ہے ۔ اگلے روز خبر آئی ہے کہ امریکہ روس کے مغرب میں واقع شمالی یورپ کے چھوٹے سے ملک فن لینڈ کو چونسٹھ جدید ترین ایف 35 جنگی طیارے فروخت کرے گا۔ فن لینڈ کی ائیر فورس کو جدید ترین امریکی جہاز مہیا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ روس کی مغربی سرحد کے گرد فوجی گھیرے کو مستحکم کیا جائے تاکہ اگر محدود جنگ کی نوبت آئے تو روس کے لیے ایک سے زیادہ محاذ پر لڑنا مشکل تر ہوجائے۔فن لینڈ تقریبا ًپچپن لاکھ آبادی کا چھوٹا سا ملک ہے جو رُوس کی مغربی سرحد سے متصل ہے۔وہ دس ارب یورو کی خطیر رقم خرچ کرکے ایف پینتیس جہاز خریدنے جارہا ہے۔ امریکہ نے بڑی کوشش کی کہ روس کو اپنا تزویراتی اتحادی بنائے اور اسے چین کے ساتھ قربت بڑھانے سے روکے۔ امریکہ کو روس سے ایک اور شکایت ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میںایران کی مدد کررہا ہے۔ اسکے ایٹمی پروگرام کو بند کروانے میں ا مریکہ کا ساتھ نہیں دے رہا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی پٹھو بورس یلسن کی ماسکو پر حکومت قائم ہوگئی تھی۔اس زمانے میں واشنگٹن نے میڈیا اوراین جی اوز کے ذریعے روس میں اپنے اتحادی بنائے ۔ ان پر مال خرچ کیا۔ بڑے پیمانے پر سی آئی اے کے ایجنٹ بھرتی کیے گئے۔ آج روس کے ہر شعبہ میںسی آئی اے کے کارندے موجود ہیں۔ تاہم صدرولادی میر پیوٹن کٹّر قوم پرست ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنے ملک میں امریکی اثر و رسوخ کوبتدریج کم کیا ۔ امریکہ اور یورپ نے ان کے خلاف بڑی مہم چلائی۔انہیں آمر قرار دیا گیا جو جمہوریت کے راستے سے ہٹ گیا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر انکے مخالفین کی سرپرستی کی لیکن وہ صدر پیوٹن کی حکومت ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ امریکہ اور یورپ کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا کہ روس انکا قریبی اتحادی ملک بن جائے اور اپنی آزاد تزویراتی حیثیت پر سمجھوتہ کرلے۔ جب سوویت یونین ٹوٹا اور مشرقی اور مغربی جرمنی ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک ملک بنے تو یورپ کے رہنماؤں نے اس وقت کے روسی صدر گوربا چوف کو یقین دہانی کروائی تھی کہ امریکہ اور یورپ کے فوجی اتحاد نیٹو میںمشرقی یورپ کے ان ملکوں کو شامل نہیں کیا جائے گا جو پہلے روس کے اتحادی تھے یا جو روس کے صوبے تھے۔ لیکن اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ نیٹو نے مشرقی یورپ کے ان ممالک کو اپنے فوجی اتحاد میں شامل کرلیا ۔کوشش شروع کردی کہ سابقہ روسی صوبوں جیسے جارجیا اور یوکرائن کو بھی نیٹو میں شامل کرلیا جائے۔ یہاں سے روس کے تعلقات مغربی دنیا (امریکہ و یورپ) سے بگڑنے لگے۔ امریکہ اور یورپ ترکی کی اسلام پسند حکومت کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن صرف روس کو جنوب میں بحر اسود کی طرف سے محصور کرنے کے لیے ترکی کا ساتھ نہیں چھوڑتے ۔ اسے نیٹو کے فوجی اتحاد کاحصہ بنایا ہوا ہے۔ وال اسٹریٹ جنرل اخبار کے مطابق نیٹو نے روس کے نواح میںمشرقی یورپ میں پولینڈ اور شمالی یورپ میں بالٹک ریاستوں بشمول ایسٹونیا‘ لیٹویا‘ لیتھوینیا میں پانچ ہزار فوجی تعینات کردیے ہیں۔ امریکہ نے یوکرائن کی فوجی امداد کے لیے مزید تیس کروڑ ڈالر منظور کیے ہیں۔ یوکرائن نقطۂ اشتعال ‘ فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے۔ خطرہ ہے کہ کسی وقت روس اور یوکرائن میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس خطرہ کو کم کرنے کے لیے گزشتہ ہفتہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور امریکی صدر جو بائیڈن نے ویڈیو لنک سے سربراہی ملاقات کی۔ امریکی صدر نے روسی صدر کو یوکرائن کے خلاف فوجی کاروائی نہ کرنے کا مشورہ دیا اور دھمکی دی کہ ا گر یوکرائن کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی تو امریکہ اس ملک کو مزید جدیدترین فوجی ساز و سامان بھیجے گا ۔ واشنگٹن عندیہ دے رہا ہے کہ یوکرائن پر حملہ کی صورت میں وہ ماسکو پر سخت معاشی پابندیاں لگادے گا۔دوسری طرف‘صدر پیوٹن نے تناؤ کا ذمہ دار نیٹو کو قرار دیا ہے،جو یوکرائن کو اپنا رکن بنانا چاہتا ہے۔انہوں نے صدر بائیڈن پر واضح کیا کہ روس پکّی ضمانت چاہتا ہے کہ نیٹو اسکے کسی پڑوسی ملک کو اپنا رکن نہیں بنائے گا اور نہ اسکی سرحد کے قریب فوجی ساز و سامان رکھے گا ۔ روسی حکام نے واضح کیا ہے کہ اگر یوکرائن کی حکومت نے مشرقی یوکرائن میں روس کی اتحادی آبادی کے خلاف کارروائی کی تو ماسکو اسے برداشت نہیں کرے گا۔ یہ کارروائی سرخ لکیر ہے جسے عبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ دنیا کے بین الاقوامی بینکنگ نظام پر امریکہ کی اجارہ داری ہے۔ وہ کسی ملک پر پابندیاں لگا کر اسکی بین الاقوامی تجارت کو مفلوج کرسکتا ہے جیسا کئی برسوں سے ایران کے ساتھ کیا گیا ہے۔بینکوں کا سوفٹ نظام امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔ دنیا کے تمام بینک عالمی لین دین کے لیے امریکہ کے محتاج ہیں۔ یہ پابندیاں لگ جائیںتو صرف تجارت ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سفر کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔تاہم اگر امریکہ اور یورپ رُوس پر سخت پابندیاں لگاتے ہیں تو یورپ سردی سے اکڑ جائے گا۔ یورپ میں استعمال ہونے والی تقریباً نصف قدرتی گیس روس فراہم کرتا ہے۔ عالمی منڈی میں بارہ فیصدپیٹرولیم روس سے آتا ہے۔ اگر اسکی سپلائی رک گئی یا کم ہوگئی تو دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔ روس کی فوجی ہتھیاروں اور اسلحہ کی صنعت بہت ترقی یافتہ ہے۔ ممکنہ امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روس نے چین سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ رواں برس اسکی چین سے باہمی تجارت کا حجم 115 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اگلے سال فروری میں موسم سرما کے اولمپک کھیل بیجنگ میں منعقد ہوں گے۔ امریکہ نے ان کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔ روس ان میں شرکت کرے گا اورتوقع ہے کہ صدر پیوٹن اسکی تقریب میں شرکت کے لیے بیجنگ جائیں گے۔ نئی سرد جنگ میں ایک طرف امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی ہیں ۔ دوسری طرف روس اور چین کا اتحاد و اشتراک۔