جمعرات کی صبح رُوس اپنے ہمسایہ ملک یوکرائن پر فوج کشی کردی۔ خود کو دُنیا کی واحد سپر پاور سمجھنے والا امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی منہ دیکھتے رہ گئے۔ یوکرائن میں قائم کی گئی اپنی کٹھ پتلی حکومت کو بچانے کیلیے کوئی فوجی مداخلت نہیں کرسکے۔ امریکہ خود کوعالمی نظام یا ورلڈ آرڈر کو قائم رکھنے والا چودھری سمجھتا ہے لیکن اسکی بے بسی ایک بار پھر عیاں ہوگئی۔ اس سے پہلے انکل سام افغانستان میں بیس سال کی جنگ کے بعد ناکام و نامراد ہوکر کابل سے بھاگا تھا۔ اب یورپ میں اپنی زوّال پذیر طاقت کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ ہم ایک تاریخی عہد سے گزر رہے ہیں۔دُنیا سے واحد سپر پاور کے غلبہ کا خاتمہ ہورہا ہے۔انیس سو نوّے کی دہائی کے شروع میں کمیونسٹ سوویت یونین کے زوّال کے بعدپوری دنیا میں امریکہ واحد عالمی طاقت تھا ۔ تیس سال سے زیادہ عرصہ تک ساری دنیا پر انکل سام کی من مانی چلتی رہی۔ اب اسکے خاتمہ کی آخری رسومات ادا کی جارہی ہیں۔ ماسکو کے حکمران طویل عرصہ سے امریکہ اور مغربی یورپ کی ریشہ دوانیوں کے خلاف سفارتی سطح پر احتجاج کررہے تھے۔ جب سوویت یونین کے متعدد صوبے اس سے الگ ہوکر نئے ملک بنے اور ماسکو نے مشرقی یورپ سے فوجیں واپس بلا ئیں تو جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے اسوقت روسی صدر گوربا چوف کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ان کا فوجی اتحاد نیٹو مشرق کی جانب یعنی روس کی طرف نہیں بڑھے گا۔ اس میں صرف وہی ممالک شامل رہیں گے جو اسوقت تک اسکا حصہ تھے۔ لیکن یورپی ملکوں نے اپنا عہد پورا نہیں کیا۔ نیٹو نے روس کے قریبی ممالک کو اپنا حصہ بنالیا۔ امریکہ کی بھرپور کوشش تھی کہ روس میں قوم پرست صدر پیوٹن کی جگہ اپنے کسی پٹھو کی حکومت بنوائی جائے۔ صدر پیوٹن نے یہ کوششیں ناکام بنائیں۔ اور اپنے ملک کے ہمسائے میں واقع چھوٹے ملکوں میں ماسکو کے حلقہ اثر کو محفوظ بنانے کی خاطر اقدامات کیے۔ رُوس کے ہمسایہ میں واقع جارجیا پہلے سوویت یونین کا ایک صوبہ تھا۔ لیکن سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد وہ آزاد ملک بن گیا تھا۔ سنہ دو ہزار اٹھانوے میں نیٹو میں شامل ہوگیا تھا۔ دو ہزار آٹھ میںصدر پیوٹن نے نے جارجیا کے کچھ حصوں میں کارروائی کرکے اسکے دو چھوٹے علاقوں اسوشیا اور اب خیزیا کو علیحدہ‘ خود مختار ملک بننے میں مدد کی۔ روس کے مغرب میں واقع یوکرائن بھی پہلے سوویت یونین کا ایک صوبہ تھا۔ سات آٹھ برسوں سے یہ ملک ماسکو کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا تھا۔ پہلے تو وہاں ماسکو کی دوست حکومت کا تختہ الٹوایا گیا اور امریکہ نواز حکومت بنوائی گئی۔ اس حکومت نے ایسے اخبارات اور ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کو بند کردیا جو اسکے مخالف اور روس کے حامی تھے۔ کئی ماسکو نواز سیاستدانوں اور گروہوں پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔ یوکرائن کا دارالحکومت کیف ہے۔یہاں پر قائم حکومت سارے یوکرائن کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اس نے مشرقی یوکرائن کے علاقہ دونباس میں روسی نژاد آبادی کا ناطقہ بند کیاہوا تھا۔ کئیف نے دو مرتبہ مشرقی یوکرائن کو صوبائی خود مختاری دینے کے معاہدے کیے لیکن ان پر عمل نہیں کیا۔ اب روس نے مشرقی یونین کے دو علاقوں کو الگ ملک تسلیم کرلیا ہے ۔یوکرائن گزشتہ چند برسوں سے نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے کوشاں تھا۔ اسکا مطلب تھا کہ روس کی مغربی سرحد پر نیٹو کے ایٹمی ہتھیار‘ بلاسٹک میزائل اور فوجی تعینات ہوجاتے۔ روس بار بار امریکہ اور مغربی یورپ سے کہتا رہا کہ وہ اسے پکی ضمانت دیں کہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ اسکی سلامتی کا معاملہ ہے۔ لیکن امریکہ اور یورپ نہیں مانے۔ امریکہ اپنی طاقت کے غرور میں مبتلا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیاکے ہر خطہ میں دخل اندازی کرنا اسکا حق ہے۔ چین کے باغی صوبہ تائیوان کو فوجی امداد مہیا کرتا ہے۔ انکل سام جب چاہے جس ملک پر حملہ کردیتا ہے۔ عراق پر اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر فوجی یلغار کی اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ شام میں باغیوں کی مدد کی۔ اُسے تباہ و برباد کردیا۔ لیبیا پر فضائی حملہ کرکے صدر قذافی کے مخالفین کی مدد کی۔ قذافی کا تختہ اُلٹا۔ اُسے خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ ایران پر سخت معاشی پابندیاں لگا کر وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کروانے کے لیے سرگرم رہتا ہے۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ میںمدد گار ہے۔ اسرائیل کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کیا ہوا ہے۔ وینزویلا پر معاشی پابندیاںلگا کر اسے شدید ترین بحران سے دوچار کیا ہوا ہے۔ کیوبا میں باغیوں کو مالی مدد دیتا ہے تاکہ وہاں اپنی مرضی کی حکومت بنواسکے۔ لاطینی امریکہ کے ملکوں کی اندرونی سیاست میں امریکہ کی دخل اندازی ہے جو ان ملکوں کو مستحکم نہیں ہونے دیتی۔ دنیا کے کئی ملکوں میں علیحدگی کی تحریکوں میں امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی کا ہاتھ ہے۔ جیسے ترکی میں کرد۔ امریکہ مغربی سامراج کا سرغنہ ہے۔ برطانیہ اور فرانس اس کے اہم کارندے ہیں۔ فرانس مغربی افریقہ میں سامراجی مفادات کی رکھوالی کا کام کرتا ہے۔ امریکہ‘ مغربی یورپ کے ممالک اور آسٹریلیا نے روس پر معاشی پابندیوں کا اعلان کیاہے۔ تیس سال تک امریکہ نے واحد سپر پاور ہونے کے ناطے دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچائے رکھا۔ اب چین کا معاشی اور عسکری عروج شروع ہوا ہے اور رُوس قدرے مستحکم ہوگیا ہے توان دونوں بڑے ملکوں نے اتحاد بنا کر امریکی بالادستی کو چیلنج کیا ہے ۔ یوکرائن پر روس کی فوج کشی اس تناظر میں اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن کریملن پر ان دھمکیوں کا اثر نہیں ہوا۔یورپی ممالک اگر روس سے قدرتی گیس لینا چھوڑیں گے تو انہیں امریکہ اور دیگر ممالک سے پانچ گنا زیادہ قیمت پر گیس خریدنا پڑے گی۔ افراط ِزر بڑھے گا۔ معیشت کو سخت نقصان ہوگا۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں ایک سو ڈالر فی بیرل سے تجاوز کرچکی ہیں۔ روس اور یوکرائن دنیا میں گندم فروخت کرنیوالے سب سے بڑے ممالک ہیں۔ دنیا زیادہ دیر تک روس کا بائیکاٹ نہیںکرسکے گی۔ ماسکو کا مقصد کیف میں اپنی دوست حکومت قائم کرنا ہے جو اسکی سلامتی کے لیے مسائل کا باعث نہ بنے۔ یہ کام مکمل ہونے کے بعد وہ وہاں سے اپنی فوجیں مکمل نہیں تو جزوی طور پر نکال لے گا۔ امریکہ اور یورپ کو نئے حقائق کو تسلیم کرنا پڑے گا۔