نظام زکوٰۃ: معاشی وسائل میں اس کا مقصد واحد یہ ہے کہ دولت سب میں تقسیم ہوتی رہے اور کسی ایک گروہ کی اجارہ داری میں ہو کر ہی نہ رہ جائے چنانچہ نبی کریمﷺ نے اسی حقیقت کے پیش نظر حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا والی بنا کر ارکان اسلام کی وصیت فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا:’’(زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ) ان کے مالداروں سے وصول کی جائے اور ان کے محتاجوں پر تقسیم کر دی جائے‘‘۔الغرض زکوٰۃ، اجتماعی معاشی نظام کا ایک خاص اور اہم مالی جزو ہے۔ اسی لیے اس کے وصول کرنے کا حقیقی اور اصولی طریقہ حکومت کے نظم و انتظام کے ساتھ وابستہ کیا گیا اور اس کی تحصیل کا معاملہ حکومت کے ہاتھ میں دیا گیا ہے۔ اس نظام زکوٰۃ سے جہاں اللہ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے وہیں انسان کی خود غرضی اور بخل و حرص مال کا ازالہ بھی ہوتا، اور خلق خدا کی خدمت کا موقع بھی فراہم ہوتا ، اور غریب اور امیر، مزدور اور آجر، کسان اور زمیندار، فرد اور ریاست کے مابین تعاون کی فضا قائم ہوتی ہے۔ زکوٰۃ دراصل اسلام کے اجتماعی نظام کفالت کا ایک حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی ’’فقہ الزکاۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس کفالت سے مغرب بہت ہی محدود دائرے میں متعارف ہے، وہ معیشت کے دائرے میں عاجز اور تنگدست لوگوں کی مدد کو اجتماعی کفالت کا نام دیتاہے۔ جبکہ اسلام کی اجتماعی کفالت کا تصور اس سے کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر اور زندگی کے جملہ مادی اور معنوی پہلوئوں کو محیط ہے کہ اس اجتماعی کفالت میں اخلاقی، علمی، دفاعی، فنی ، تہذیبی، سیاسی اور معاشرتی کفالت، غرض اس کے۔۔۔تمام پہلو اسلام کے نظام کفالت کا ایک بڑا اور اہم شعبہ ہے۔ زکوٰۃ کو ہم جدید اصطلاح میں" اجتماعی ضمانت" کہہ سکتے ہیں، یعنی معاشرہ کے اپنی آمدنی سے کوئی حصہ دیتے ہی ریاست عام بجٹ سے افراد کی کفالت کی ضمانت دیتی ہے۔ اس لحاظ سے اسلام کا نظام زکوٰۃ، اجتماعی ضمانت کے سلسلے کا اولین قانون ہے۔ جو محض نفلی صدقات پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ ہر ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کا حکومت کی سطح پر ایک نظام ہے۔ جس کے تحت معاشرے کے ہر فرد کو لباس، غذا، رہائش اور ضروریات فراہم کی جا سکیں اور کوئی فرد اور اس کا خاندان ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے۔ مزید برآں اسلام کا یہ نظام زکوٰۃ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہود ونصاریٰ تمام لوگوں کو شامل ہے جو اسلامی ریاست میں رہتے ہوں۔ اسی طرح کی اجتماعی ضمانت تک فکر کی رسائی بھی قریب کے عہد میں ہوئی ہے اور اس جانب مغرب کو خدا ترسی اور کمزوروں کی ہمدردی نے متوجہ نہیں کیا ہے بلکہ خونی انقلابات اور اشتراکیت اور اشتمالیت کی طوفانی موجوں نے متوجہ کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود یورپ کی رسائی تاہنوز اس قدر جامع نظام ضمانت کی جانب نہیں ہو سکی ہے جس کا تصور اسلام نے دیا ہے کہ ہر شہری اس ضمانت میں شامل ہے اور ہر شہری کی اور اس کے اہل خانہ کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ریاست کی ذمہ داری ہے اور یہ کوئی انفرادی احسان اور خیرات کا سلسلہ نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ اہل ضرورت کا ایک متعین حق ہے، جو دولت مندوں کے مال میں رکھا جاتا ہے، اور اسلامی حکومت اس حق کو وصول کرتی اور تقسیم کرتی ہے اور یہ ایسا حق ہے جو کسی صورت سا قط نہیں ہوتا، خواہ حکومت اس کی وصولیابی کی ذمہ داری نہ سنبھالے، یہ حق بدستور لازم رہتا ہے۔‘‘ اسلامی معاشرہ میں زکوٰۃ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عصرِ حاضر کے ایک سکالر فرماتے ہیں: ’’یہ مسلمانوں کی کواپریٹو سوسائٹی ہے۔ یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے۔ یہ ان کے لیے بے کاروں کا سرمایہ اعانت ہے۔ یہ ان کے معذوروں، اپاہجوں، بیماروں، یتیموں اور بیوائوں کا ذریعہ معاش ہے، اور ان سب سے بڑھ کر یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو فکر فرد اسے بے نیاز کر دیتی ہے۔ اس کا سیدھا سادھا اصول یہ ہے کہ آج تم مال دار ہو تو دوسروں کی مدد کرو، کل تم نادار ہو گئے تو دوسرے تمہاری مدد کریں گے۔ تمہیں یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ مفلس ہو گئے تو کیا بنے گا؟ مر گئے تو بیوی بچوں کا کیا حشر ہو گا؟ کوئی آفت نا گہانی آ پڑی، بیمار ہو گئے، گھر میں آگ لگ گئی، سیلاب آ گیا، دیوالیہ نکل گیا تو ان مصیبتوں سے گلو خلاصی کی سبیل کیا ہو گی؟ سفر میں پیسہ پاس نہ ہو تو کیونکر بسر ہو گی؟ ان سب فکروں سے صرف زکوٰۃ تم کو ہمیشہ کے لیے بے فکر کر دیتی ہے۔ تمہارا کام بس اتنا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی دولت میں سے ڈھائی فیصدی دے کر اللہ کی انشور نس کمپنی میں اپنا بیمہ کرالو۔ اس وقت تم کو اس دولت کی ضرورت نہیں یہ ان کے کام آئے گی جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ کل جب تم ضرورت مند ہو گے یا تمہاری اولاد ضرورت مند ہو گی تو نہ صرف تمہارا اپنا دیا ہوا مال بلکہ اس سے بھی زیادہ تم کو واپس مل جائے گا۔ یہاں پھر سرمایہ داری اور اسلام کے اصول و مناہج میں کلی تضاد نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کا اقتضاء یہ ہے کہ روپیہ جمع کیا جائے اور اس کو بڑ ھانے کے لیے سود لیا جائے، تاکہ ان نالیوں کے ذریعہ سے آس پاس کے لوگوں کا روپیہ بھی سمٹ کر اس جھیل میں جمع ہو جائے۔ اسلام اس کے بالکل خلاف حکم دیتا ہے کہ روپیہ اول تو جمع ہی نہ ہو۔ اگر جمع ہو بھی، تو اس تالاب سے زکوٰہ کی نہریں نکال دی جائیں، تاکہ جو کھیت سوکھے ہیں ان کو پانی پہنچے، اور گرد و پیش کی ساری زمین شاداب ہو جائے۔ سرمایہ داری کے نظام میں دولت کا مبادلہ مقید ہے اور اسلام میں آزاد۔ سرمایہ داری کے تالاب سے پانی کے لیے ناگزیز ہے کہ خاص آپ کا پانی بھی پہلے سے وہاں موجود ہو،ورنہ آپ ایک قطرہ آب بھی وہاں سے نہیں لے سکتے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کے خزانہ آب کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو وہ اس میں لا کر ڈال دے اور جس کو ضرورت ہو وہ اس میں سے لے لے۔ ظاہر ہے کہ دونوں طریقے اپنی اصل اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی پوری پوری ضد ہیں۔‘‘ زکوٰۃ معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن کریم نے علامتی اسلوب میں اس موضوع پر نہایت خوبصورت بحث کرتے ہوئے کہا کہ:’’اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ ہو، جو زمین سے اُگے اور سات بالیاں نکالے۔ ہر بالی میں سو دانے بھرے ہوں۔ اللہ جس کے لیے چاہے کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔‘‘ (الایۃ الکریمۃ۔ البقرہ:۲۶۱) چنانچہ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ دولت اہل زر کے پاس منجمد ہو کر نہ پڑی رہے۔ چند اشخاص کے پاس دولت جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت بے وسیلہ ہوتی چلی جائے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مالدار اور نادار طبقات کے درمیان تضاد اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ایک نہ ختم ہونے والی کشیدگی شروع ہو جاتی ہے۔ جو بالآخر معیشت او ر معاشرت دونوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کے خود کار نظام سے دولت کے ارتکاز میں کمی آتی ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے پائپ سے دی جا سکتی ہے، جس کے ذریعے ٹینکی کا ذخیرہ آب ایک حد تک پہنچتے ہی از خود باہر آنے لگتا ہے اور پانی کی مقدار ایک خاص پیمائش سے زیادہ نہیں ہونے پاتی۔(اختتام)