امریکی صدر جوبائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ رواں برس 9/11کے 20سال مکمل ہونے تک امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل کر لیا جائے گا۔ لیکن امریکہ افغان حکومت کی شدت پسندوں سے جنگ میں مدد بھی جاری رکھے گا، جو افغانستان کے پڑوسی ممالک میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکی ملٹری کمانڈ کے مطابق امریکہ کی ترجیح وسطی ایشیا میں فوجی اڈے ہیں بظاہر امریکہ کے لئے اس مقصد کے لئے یہی ایک قابل عمل آپشن ہی بچتا ہے۔2001-2014ء تک امریکہ کے خطہ میں فوجی اڈے موجود بھی رہے ہیں، البتہ اب تک صورتحال بہت بدل چکی ہے خاص طور پر امریکہ کے وسطی ایشیائی ممالک سے تعلقات کو نئی ابھرتی طاقتوں چین اور روس نے کافی حد تک اور بظاہر کوئی ملک بھی آسانی سے اپنی سرزمین پر امریکیوں کو خوش آمدید نہیں کہے گا۔ اگر امریکہ خطہ میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا ہے تو پھر امریکہ کو یہ باور کروانا ہو گا کہ امریکہ ماسکو اور بیجنگ کی ناراضگی مول لے کر اڈے فراہم کرنے والے ملک کا بہتر فوائد دے سکتا ہے جو اس قدر آسان نہ ہو گا کیونکہ گزشتہ ایک دھائی سے سنٹرل ایشیائی ممالک کے عوام کا اس بات پر یقین پختہ ہو چکا ہے کہ امریکہ روس اور چین سے بہتر متبادل نہیں ہو سکتا۔ ایک وقت ہوا کرتا تھا کہ سنٹرل ایشیا کے ممالک امریکہ کی ایک نظر کو بھی غنیمت سمجھا کرتے تھے امریکہ بھی خطے میں جمہوریت کے فروغ اور معاشی ترقی کا نعرہ لگایا کرتا تھا،آج وسط ایشیائی ممالک کے لئے افغانستان کے معاملے پر امریکہ سے تعاون مسئلہ بھی نہیں رہا۔ افغانستان کی سرحدیں چھ ممالک سے ملتی ہیں مگر آج ان چھ ممالک میں سے کسی ایک ملک میں بھی امریکی اڈے ہیں نا ہی مستقبل میں توقع کی جا سکتی ہے کہ کوئی ملک امریکہ کا اتحادی بننے کا خواہش مند ہے۔افغانستان کی ایران پاکستان چین تاجکستان ازبکستان اور ترکمانستان سے سرحدیں ملتی ہیں یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایران یا چین میں امریکہ کو فوجی اڈے مل سکتے ہوں پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور معاشی انحصار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ پاکستان کے لئے امریکہ کو چین پر ترجیح دینا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ ترکمانستان امریکہ کو اڈے فراہم کر کے خطہ میں تنہائی کا رسک لے سکے نا ہی قازقستان امریکہ کے لئے موزوں ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں سے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کے لئے افغانستان کی نگرانی مشکل ہو گی اس کے علاوہ قازقستان کے روس سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔ آ جا کے صرف دو ملک تاجکستان اور ازبکستان ہی بچتے ہیں امریکہ میڈیا کی طرف سے پینٹا گون کے ذرائع سے باتیںسامنے آ رہی ہیں کہ امریکہ ان دو ممالک میں فوجی اڈے بنانے کے امکانات کا جائزہ ہی نہیں کوشش بھی کر رہا ہے، امریکی میڈیا میں کرغستان کا ذکر نہیں جہاں امریکہ کو گھاس ڈالی جا سکتی۔ اب ایک ایک کر کے جائزہ لیتے ہیں کہ امریکہ کو کون سا ملک اڈے فراہم کر سکتا ہے۔ سب سے پہلے تاجکستان کی ہی بات کر لیتے ہیں تو تاجکستان کے لئے امریکہ کو اڈے فراہم کرنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ ایک تو تاجکستان سی ایس ٹی او (اجتماعی سکیورٹی) معاہدے پر دستخط کر چکا ہے اور روس کے اڈے بھی اس ملک میں موجود ہیں تاجکستان کی معیشت کا 22فیصد انحصار روس پر ہے اس کے علاوہ تاجکستان کے صدر رحمن خطہ کے واحد ریاستی سربراہ ہیں،جنہوں نے آج تک امریکہ کا کوئی سرکاری دورہ ہی نہیں کیا۔ دوسرے نمبر پر کرغستان ہے مگر کرغستان بھی بہت حد تک روس اور چین پر انحصار کرتا ہے کرغستان نے بھی ایس پی او پر دستخط کئے ہوئے ہیں اس کے علاوہ کرغستان کی معیشت کے ایک چوتھائی کے برابر چین کا مقروض ہے اور پھر جی ڈی پی کے ایک تہائی روس سے حاصل ہوتا ہے۔2001ء سے 2014ء تک کرغستان امریکہ کا مضبوط اتحادی اورتعلقات کے فروغ کا داعی رہا ہے، مگر 2015ء کے بعد کرغستان نے بھی امریکہ سے تعاون کے معاہدے کی تجدید نہیں کی ہے۔ تیسرے نمبر پر ازبکستان ہے تو یہ ملک بھی روس اور چین پر انحصار کرتا ہے 2016ء کے بعد ازبکستان کے روس کے ساتھ تعلقات میں بہت زیادہ گرم جوشی دیکھی جا سکتی ہے، ازبکستان کے امریکہ سے گہری عسکری مراسم رہے ہیں مگر اب ازبکستان بھی امریکہ کو اڈے فراہم کرے چین اور روس کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا۔ اس بات کے باوجود اگر امریکہ وسط ایشیا میں فوجی اڈے بنانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے، تب بھی خطہ میں طاقت کے توازن کے تبدیل ہونے کے امکانات مخدوش ہو چکے ہیں، روس اور چین کے خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی اپنی جگہ یہ دونوں ممالک خطہ کی ترقی کے لئے بہت زیادہ کام بھی کر رہے ہیں۔ مزید برآں چین اب صرف دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہی نہیں بلکہ عسکری قوت بن کر بھی ابھر رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین خطے کے ممالک کے ساتھ معاشی وعسکری معاہدے بھی کر رہا ہے چین پہلے ہی تنبیہ کر چکا ہے کہ امریکہ خطے کے ممالک کے داخلی معاملات میں بے جا مداخلت کر رہا ہے، چین اور روس خطے میں امریکی فوجی اڈوں کے حوالے سے اس لئے مزاحمت کریں گے کیونکہ دونوں ممالک کو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ یہ اڈے ان کے خلاف استعمال کئے جائیں گے اس طرح خطہ میں کوئی ایک ملک بھی نہیں جہاں امریکہ کو فوجی اڈے مل سکتے ہوں خطہ کا کوئی ملک نہ تو امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنے کا رسک لے سکتا ہے نا ہی کسی ملک کی بھی ایسا کرنے کی خواہش ہے جس سے خطے میں امریکی اثرورسوخ میں واقع کمی دیکھی جا سکتی ہے، اب امریکہ کو اپنے اہداف کے حصول کے لئے دوسرے ذرائع استعمال کرنا ہوں گے ممکن ہے امریکہ اب خطے کے ممالک کی نگرانی کے لئے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اڈے قائم کرے اور وہاں سے روس اور چین کی نگرانی کی جائے۔ (بشکریہ:دی ماسکو ٹائمز‘ترجمہ:ذوالفقار چودھری)