لاہور(رانا محمد عظیم)مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز سمیت ن لیگ کے 8اہم رہنماؤں کی گرفتاری کا فیصلہ23تاریخ کو ویڈیو سکینڈل کی سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد کیا جائے گا۔ 23تاریخ کوسپریم کورٹ میں اگر ایف آئی اے کیس کے حوالے سے رپورٹ پیش کرتی ہے یا سپریم کورٹ کی طرف سے کیس کے تمام محرکات اور اس کی حقیقت سامنے لانے کے احکاما ت جاری ہوتے ہیں تو ایف آئی آ ر کے مطابق گرفتاریوں کا عمل شروع ہوسکتا ہے ۔ جج ارشد ملک کی ایف آئی آر کے تحت ہر صورت میں ن لیگ کی قیادت جسے اس میں نامزد کیا گیا ہے کو شامل تفتیش ہونا پڑے گا جبکہ ن لیگ کی طرف سے شامل تفتیش ہونے سے واضح طور پر انکار کیا جارہا ہے ۔ اگر ن لیگ کی قیادت شامل تفتیش نہیں ہوتی تو پھر ان کی گرفتاری کے لیے باقاعدہ ایف آئی اے قانون کے مطابق کارروائی کرے گی ۔باوثوق ذرائع کے مطابق جج ارشدملک کی ویڈیو کے حوالے سے ایف آئی اے کے زیر حراست ملزم میاں طارق کے اہم ترین انکشافات اور ویڈیو کی اصل چیزیں سامنے آنے کے بعد نامزد ملزمان مریم نواز ،شہبازشریف،پرویز رشید ،رانا تنویر،خواجہ آصف،عظمیٰ بخاری،احسن اقبال سمیت دیگر اس مقدمے میں ایف آئی اے کو مطلوب ہیں ۔ مریم نواز اورشہباز شریف سمیت دیگر لیگی رہنماؤں کی گرفتاری کے حوالے سے تمام قانونی کارروائی نہ صرف مکمل ہو چکی ہے بلکہ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اس حوالے سے اہم ترین ذمہ داران کو بھی آگاہ کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے ۔ ایف آئی اے نے اس کیس میں نہ صرف اہم ترین شواہد حاصل کرلیے بلکہ ذرائع کے مطابق میاں طارق سے ملنے والی ویڈیوز کے حوالے سے کئی اور افراد کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں جن کو باقاعدہ میاں طارق بلیک میل کرتا رہا۔ میاں طارق اور تین اور افرادبھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہیں جو اس سکینڈل کا اہم ترین حصہ ہیں ۔ویڈیو سکینڈ ل کے حوالے سے ایک اور ایف آئی آر بھی درج ہوسکتی ہے جو توہین عدالت اور عدلیہ کو بدنام کرنے کی ہوگی۔