تحریک انصاف نے وسیب کے مسائل کے حل اور صوبے کے قیام کے وعدے پر ووٹ حاصل کئے اور وسیب کے ووٹوں سے ہی آج تحریک انصاف مرکز اور صوبے میں برسر اقتدار ہے مگر نہ صوبہ بنا ہے اور نہ ہی وسیب کے مسئلے حل ہوئے ہیں ۔ سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ ہوا مگر پونے چار سو دنوں میں صوبہ تو کجا ، صوبہ کمیشن بھی نہیں بن سکا۔ سابق دور حکومت میں سی پیک کا ایک منصوبہ ملتان سکھر موٹروے شروع ہوا ۔ جو کہ مکمل ہو چکا ہے اعلان کیا گیا کہ 14 اگست کو وزیر اعظم افتتاح کریں گے اور موٹروے کھول دی جائے گی مگر ابھی تک افتتاح کی نوبت نہیں آ سکی ۔ اسی طرح صوبے سے توجہ ہٹانے کیلئے سو دن کے بعد حکومت نے یہ اعلان کیا کہ سرِ دست ہم سب سول سیکرٹریٹ قائم کرتے ہیں۔ پھر تواتر کے ساتھ وزیراعلیٰ اور وزراء کی طرف سے یکم جولائی کا اعلان ہوتا رہا کہ سب سول سیکرٹریٹ قائم ہو جائے گا اور ملتان کو بگ سٹی بھی بنا دیا جائے گا ‘ مگر وہ وعدہ بھی نقشِ بر آب ثابت ہوا ۔ سرائیکی وسیب کو ہمیشہ یہ طعنہ ملتا آ رہا ہے کہ وسیب کے لوگ نواب مشتاق گورمانی ‘ نواب آف کالا باغ‘ ملک غلام مصطفی کھر ‘ صادق قریشی ‘ عباس خان عباسی ‘ مخدوم سجاد قریشی ‘ میر بلخ شیر مزاری ‘ سردار فاروق خان لغاری ،یوسف رضا گیلانی ،شاہ محمود قریشی کی شکل میں ہمیشہ برسر اقتدار رہے مگر اس کے باوجود مسئلے حل نہ ہوئے تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ آج بھی وسیب کے پاس بہت بڑا اقتدار ہے ۔ اگر آج بھی مسئلے حل نہیں ہوتے تو پھر کب حل ہونگے ۔ صوبے کے حوالے سے کام کرنیوالی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ وسیب کے شعراء بہت کچھ لکھ رہے ہیں ۔ جیسا کہ ایک شاعر نے لکھا ۔ حکمرانوں کو بلا تاخیر صوبہ بھی بنانا ہوگا اور وسیب کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ زراعت کی زرخیزی میں وسیب اپنی مثال آپ ہے ، اس وقت ملک کی مجموعی زرعی پیداوار کا 70فیصد یہی خطہ مہیا کر رہا ہے ، زرعی پیداوار میں کپاس سب سے اہم فصل ہے مگر اس علاقے میں انڈسٹری نہیں ، انڈسٹری نہ ہونے کے باعث اس علاقے میں بے روزگاری اور غربت عام ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ لاہور ،فیصل آباد ، گجرات ،سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کی طرح وسیب میں انڈسٹریل زون قائم کئے جائیں اور جس طرح اپر پنجاب کی شاہرات کو انڈسٹریل سٹیٹس کا درجہ دیا گیا ہے اسی طرح کا عمل سرائیکی وسیب میں بھی دہرایا جائے۔ انڈس ہائی وے پشاور سے کراچی جاتی ہے ، ڈیرہ اسماعیل خان، وہوا(تونسہ شریف) سے سرائیکی وسیب میں داخل ہوتی ہے ۔یہ ایک لمبی پٹی ہے جو سندھ و بلوچستان کے بارڈر کشمور تک جاتی ہے ، سینکڑوں کلو میٹر کے اس فاصلے تک ایک بھی انڈسٹری قائم نہیں کی گئی ، حالانکہ اس علاقے کے پہاڑوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر راجن پور وغیرہ میں سیمنٹ کے کارخانے اور کپاس کی بہترین پیداوار اور وافر افرادی قوت سے فائدہ اٹھا کر اس علاقے میں ’’ٹیکسٹائل ٹیکس فری زون‘‘ قائم کئے جا سکتے ہیں ۔ اس سے یہ علاقہ ترقی کرے گا اور یہاں سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ وسیب میں تعلیمی سہولتوں کا بہت فقدان ہے ، اعلیٰ معیار کا یہاں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ، پورے وسیب میںایک بھی کیڈٹ کالج نہیں۔ وسیب کو لائیوسٹاک کا خطہ کہا جاتا ہے اس کے باوجود اس علاقے میں ناصرف یہ کہ ایک بھی وٹرنری کالج یا یونیورسٹی نہیں بلکہ یہاںحیوانات کے علاج کے لئے اعلیٰ معیار کا ایک بھی ہسپتال نہیں ۔ بہاولپور میں 10 سال پہلے لائیو سٹاک یونیورسٹی کا اعلان ہوا مگر ابھی تک یہ اعلان ہی ہے۔یہاں حیوانوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کیلئے بھی طبی سہولتوں کا فقدان ہے ۔ آبادی کی ضروریات سے کہیں کم تعداد میں ہسپتال اگر موجود ہیں بھی تو وہاں بھی ادویات اور عملے کی ہر وقت کمی رہتی ہے ۔ ملتان کی انجینئرنگ یونیورسٹی کاغذوں میں دھکے کھا رہی ہے، نواز شریف زرعی یونیورسٹی اور خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی رحیم یار خان بھی مسائل کا شکار ہے۔ غازی یونیورسٹی ، خواتین یونیورسٹی ملتان و بہاولپور محض نام کی یونیورسٹیاں ہیں ، ڈی جی خان میں سخی سرور کے نام سے یونیورسٹی کی ضرورت ہے‘ البتہ اوکاڑہ میں میر چاکر خان کے نام سے یونیورسٹی بنا دی جائے تو مضائقہ نہیں ۔ وسیب میں مواصلات کی سہولتوں کی عدم فراہمی اہم مسئلہ ہے ، آج بھی وسیب میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہو ںنے پختہ سڑک نہیں دیکھی ، علاوہ ازیں وسیب کے دریائوں پر پُلوں کی تعمیر بھی اہم ترین مسئلہ ہے ۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اہم قدم اٹھایا تھا اور دریاؤں پر پُلوں کا کام شروع کرایا ، ان کے جانے کے بعد کام سست روی کا شکار ہوئے ‘ کام جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت چاچڑاں ، کوٹ مٹھنْ کے درمیان دریائے سندھ پر نشتر گھاٹ کی اپروچ روڈز ، تونسہ ، لیہ پل کی تکمیل، دریائے چناب پر شورکوٹ تا گڑھ مہاراجہ ، کے ساتھ ساتھ سردار پور تا احمد پور سیال ، شجاع آباد تا خانگڑھ ‘ کوٹلہ مغلاں تا جتوئی کے پل کی فوری ضرورت ہے۔ یہ خطہ بنیادی طور پر دریائوں کی سر زمین ہے ، پاکستان کے تمام دریا یہاں آ کر ملتے ہیں اور اس علاقے کو سات دریائوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے ، اس کے باوجود پانی یہاں کا اہم مسئلہ ہے ، پانی نہ ملنے کے باعث چولستان اور تھل کے صحرا میں ہر سال ہزاروں ذی روح لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع سمیت وسیب کے اکثر علاقوں میں پینے کا پانی میسر نہیں اور پانی کے ایک گھڑے کے حصول کیلئے ہماری خواتین کو میلوں کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے ۔ علاوہ ازیں ایک اہم بات جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ وسیب کے جن علاقوں کو پینے کیلئے پانی مہیا کیا جا رہا ہے وہ اس قدر ناقص اور مضر صحت ہو چکا ہے کہ گندا پانی پینے سے وسیب میں کالے یرقان نے وبائی شکل اختیار کر لی ہے ، اس وقت پورا وسیب ہیپاٹائٹس کی لپیٹ میں ہے ، ہنگامی بنیادو ںپر کالے یرقان کے علاج معالجے کیلئے اقدامات کے ساتھ ساتھ مرض کے اصل محرکات کا خاتمہ کیا جائے اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے۔ ٭٭٭٭٭