پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تمام جمہوریت پسند جماعتوں کے ساتھ وسیع تر میثاق جمہوریت کے لیے اپنی جماعت کی آمادگی کی بات کی ہے۔ نئے میثاق جمہوریت کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ پہلے میثاق جمہوریت کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ نئے میثاق جمہوریت میں ان دیگر جماعتوں کو شریک کرنے کی بات بھی کی جا رہی ہے جو پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھتی ہیں۔ نئے وسیع تر میثاق جمہوریت کی یقینا ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب سابق حکمران جماعت کی قیادت اور اہم شخصیات کے خلاف نیب مقدمات کی تحقیقات کا آغاز ہوا تو اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے میثاق معیشت کی تجویز دی تھی۔ میثاق معیشت کا بظاہر مقصد ملک کی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے پیدا کرنا تھا مگر درحقیقت اس کے پردے میں ان میگا منصوبوں کی شفافیت کا عمل احتساب سے ماورا رکھنا تھا جنہیں مسلم لیگ ن اپنی کارکردگی کے طور پر ووٹرز کے سامنے پیش کرتی رہی ہے۔ سابق چیئرمین سینٹ جناب رضا ربانی نے ریاستی اداروں کے مابین مکالمہ کی بات کی تھی۔ میاں نواز شریف چونکہ اس وقت سول ملٹری کشیدگی کا تاثر ابھار کر اپنے خلاف قانونی عمل کا راستہ مسدود کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے رضا ربانی کی اس تجویز کی حمائت میں دیر نہ لگائی حالانکہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس تجویز پر تحفظات تھے۔ میثاق جمہوریت 14مئی 2006ء کو لندن میں ہوا۔ ملک کی دو بڑی جماعتوں کے سربراہ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اس پر دستخط کئے۔ آٹھ صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں پرویز مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم‘ جمہوریت میں فوج کے کردار‘ نیشنل سکیورٹی کونسل‘ احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں جماعتوں کا مشترکہ نکتہ نظر پیش کیا گیا۔2006ء کے میثاق جمہوریت کے وقت دونوں جماعتوں کی قیادت جلا وطن تھی۔ عوامی ہمدردیاں دونوں کے ساتھ تھیں۔ اس معاہدے نے ان جماعتوں کو طاقت عطا کی۔ عالمی سطح پر جمہوری اقدار اور اقدامات کو ہمیشہ زبردست پذیرائی حاصل رہی ہے لہٰذا جمہوری دنیا نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اس میثاق جمہوریت (چارٹر آف ڈیمو کریسی) کی بڑے پیمانے پر حمائت کی۔ اس عالمی حمائت اور پاکستان میں عوام کی طرف سے اسے خوش آئند تصور کرنے کی وجہ سے پرویز مشرف حکومت پر ایک دبائو بنا۔ اس دبائو نے آگے چل کر این آر او کی بنیاد رکھی اور دونوں قائدین وطن واپس آئے۔ انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کی قائد بے نظیر بھٹو خودکش حملے میں شہید ہو گئیں تاہم انتخابات میں ان کی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں مل گئیں۔ پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت میں پرویز مشرف کی متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم کے خاتمہ کا جو وعدہ کیا تھا اسے اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں پورا کیا تاہم فوج کے کردار اوربعض دیگر معاملات پر مسلم لیگ ن نے وہ تعاون فراہم نہ کیا جو معاہدے کی رو سے اس کی ذمہ داری تھی۔ اس معاہدے میں احتساب کے متعلق دونوں جماعتوں نے جو نکتہ نظر اپنایا اس کا مطلب یہی بنتا تھا کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو مسلم لیگ نواز کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات نہیں بنائے گی اور اگر نواز لیگ کو اقتدار ملا تو وہ پیپلز پارٹی کے خلاف مقدمات بنانے سے باز رہے گی۔ دونوں جماعتوں نے پانچ پانچ سال تک حکومت کی۔ آئین سے ایل ایف او کے اخراج کے سوا کوئی ایسی کارکردگی سامنے نہ آ سکی جسے جمہوری استحکام‘ عوام کے مسائل کے حل اور معیشت کی بحالی کے ضمن میں سیاسی جماعتوں کے مابین مفاہمت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہو۔ نئے میثاق جمہوریت کی بات چونکہ ایک بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے کی گئی ہے اور ساتھ اس امر کا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے کہ پہلے والے معاہدے کے ایک فریق نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اس لیے یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جس وسیع تر میثاق جمہوریت کی خواہش رکھتے ہیں اس کی بنیاد کیا ہو گی۔ ہر زمانے کے معاشرتی چیلنج جمہوری مطالبات کی شکل میں ڈھلتے ہیں۔2006ء کا میثاق جمہوریت سیاست سے خارج کیے گئے مقبول رہنمائوں کی وطن واپسی اور ان کے جمہوری کردار کا تعین کرتا تھا۔ اب حالات قدرے بدل چکے ہیں۔ قومی منظر نامے پر تحریک انصاف کی شکل میں ایک نئی سیاسی قوت سامنے آ چکی ہے۔ عوام کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے ایسے منشور مسترد کیے جا رہے ہیں جو قومی وسائل لوٹنے والوں کے احتساب کے معاملے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کی فراوانی نے عوام کو بتا دیا ہے کہ ان کے خون پسینے کی کمائی کو کچھ سیاستدان لوٹ کر بیرون ملک لے جاتے ہیں۔ سرمایہ کاری کی آڑ میں قومی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے اور اپنی کمشن کھری کر لی جاتی ہے۔ سیاسی قوتیں اگر کوئی میثاق جمہوریت کرنا چاہتی ہیں تو انہیں ایسی معاشی پالیسیوں پر اتفاق کرنا ہو گا جو حکومت بدلنے کی صورت میں تبدیل نہ کی جا سکیں۔ میثاق جمہوریت میں اس امر پر توجہ دی جانی چاہیے کہ منتخب جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے تاہم اگر کسی حکومت پر بدعنوانی اور نااہلی کے معاملات ثابت ہو جائیں تو اسے برقرار نہیں رہنا چاہیے۔ بدعنوان اوربدنیت حکومت جتنی دیر اقتدار میں رہے گی وہ مزید خرابیوں کا سبب بنتی رہے گی۔ پاکستان کی دفاع اور خارجہ کی پالیسیوں پر عسکری نکتہ نظر کا غلبہ بتایا جاتا ہے ۔اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں میں ان شعبوں سے نابلد اور کم اہلیت افراد کی موجودگی ہے۔ اداروں کو مضبوط بنانا بھی نئے میثاق جمہوریت کا حصہ ہونا چاہیے۔ عوام سیاسی جماعتوں کی موروثی قیادت سے بیزار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا داخلی ڈھانچہ خود جمہوری اقدار سے محروم ہے۔ جب تک پارٹی انتخابات کی جگہ پسند ناپسند کی بنیاد پر نامزدگیوں کا سلسلہ جاری رہے گا سیاسی جماعتیں کبھی اپنا جمہوری کردار ادا نہیں کر پائیں گی۔ ہمارے ہاں بہت سے تصورات کو سیاسی فلسفہ کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے مگر ان کی افادیت سامنے نہ آنے پر سارے جمہوری ڈھانچے سے متعلق عوام میں بداعتمادی سرایت کر جاتی ہے۔پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی اتحاد بننے کا معاملہ ہو یا میثاق جمہوریت جیسے معاہدے ہوں عوام کی خواہشات کو فراموش کر کے حکمران طبقات اپنی اغراض کی تکمیل کا راستہ تلاش کرتے رہے۔پاکستان کے عوام جمہوریت پسند ہیں‘ وہ انتقال اقتدار کے اس پرامن اور مہذب طریقے کو اولیت دیتے ہیں لیکن وہ یہ بات ہرگز گوارا نہیں کرتے کہ میثاق جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتیں مک مکا کر لیں۔