طویل عرصے بعد شاہ جی صاحب کی آمد پر دو دن جڑانوالہ رہنے کاموقع میسر آیا۔ سرِشام گھر کے باہر ، بیٹھ کر ۔۔۔ مقامی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے اُڑتی خاک اور اُٹھتے دھوئیں کو رگ و پے میں اُتارتا رہا،اسی کو تو " وطنِ مالوف" کہتے ہیں ، یعنی جس کی اُلفت انسان کے قلب و نظر میں پیوست ہو ، جس کی خا ک کے زروں کی خوشبو بھی آدمی کے مشامِ جاں کو معطر کرے، یہی مٹی کی محبت ہے، جس کے لیے لوگ بعض اوقات بڑی بڑی قربانیاں بھی دے دیتا ہے۔70ء کے عشرے میں ہمارے اس شہر کی آبادی "امام بار گاہ" تک ختم ہوجاتی تھی، یہیں پر اس وقت کے میونسپلٹی سسٹم کے مطابق "محصول چونگی" جس کی مختصر کلیرنس کے بعد شہر کی منڈی میں پہنچنے والے سامان کو داخلے کی اجازت میسر آتی، علی الصبح تازہ سبزیاں منڈی تک پہنچنے کے مناظراور پانی کے چھڑ کائو والی گاڑی کے گزرنے کے مظاہر ذہن میں نقش ہیں ۔یہی شہر کا" مین بلیوارڈ" تھا ، جوہمارے گھر سے 100 میٹر پہلے شروع ہوتا اور پھر" صابری مسجد" کے پہلو کو چھوتا ہوا، واٹر ورکس اور نہر تک جا پہنچتا۔ 1985 ء میں جب ملک میں ایک دفعہ پھر جمہوریت اُترنے کو تھی، تو ہمارے ساتھ والے گھر میں سردار محمد اقبال ، جو اس وقت وفاقی محتسب تھے، کے بیٹے سردار شاہد اقبال جڑانوالہ سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے نازل ہوئے، کہنہ مشق خطیب سید تنویر عباس تابش ہر اول دستہ کے طور پر پہنچے، راقم ان دنوں بی ۔اے کا طالب علم تھا، سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی کے سبب ، کالج میں اس کا متبادل فورم" انجمن اردو" تھا، جس کی ذمہ داری میرے پاس تھی۔ خوبصورت اور سمارٹ سے شہر کی معاشرت پر مقامی سکول اور کالج کے بہت زیادہ اثرات تھے۔ یہیں پر ایک دن سردار اقبال تشریف لائے اور پھر اس کے نتیجے میں کالج کے کانوکیشن کی عظیم الشان تقریب منعقد ہوئی ۔ جڑانوالہ کی دینی ، علمی اور مذہبی سرگرمیوں کا مرکز صابری مسجد ۔۔۔جس کی بنیادوں کو مستحکم اور عمارت کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری گذشتہ صدی۔۔۔ کی پانچویں دہائی میں میرے والد ِ گرامی رحمتہ اللہ علیہ نے اُٹھائی اور پھرجب تک وجودِ خاکی میں زندگی کی حرارت رہی ،اس کو نبھایا اور خوب نبھایا ، یہاں تک کہ یہ مسجد اُن کی اور وہ اس مسجد کی پہچان بن گئے ۔ اسی مسجد سے متصل خانقاہ اور "گلستان فاطمہؓ"جس میں 14 فروری1998ء کومیر ی ـ" سہر ا بندی" کی تقریب ہوئی ، جس میں صاحبزادہ پیر نصیر الدین نصیر الگیلانی (گولڑہ شریف) نے سہرا لکھا اور از خود پڑھ کر ان محبت آفریں لمحوں کو یاد گار بنایا،اُن کے کہے ہوئے اشعار میں سے چند ایک: کہہ اٹھا دیکھ کے بے ساختہ زائر سہرا واہ کیا خوب سجا بر سر طاہرــؔ سہرا نسبت اہل نظر اس کو ملی ورثے میں اپنے انداز میں کرتا ہے یہ ظاہر سہرا دہر میں چمکے سدا فخر و مباہات کے ساتھ عمر بھر دیکھے مسرت کے مناظر سہرا ڈوب کر ہم نے محبت میں کہا جیسے نصیرؔ کیا کہے گا کوئی اس رنگ میں شاعر سہرا جڑانوالہ اور اس کے گردو نواح کی سر سبز و شاداب زمین ، عرفِ عام میں ـ"سونااُگلتی" تھی، یہاں پر جملہ اقسام کی سبزیاں اور علاقائی پھل بکثرت ہوتے، گندم، کپاس، چاول، کماد اور مکئی فصلیں، جبکہ اس کے گُڑ کو ملک گیر شہرت حاصل اور شوگر مل اپنی معیاری پروڈکشن کے حوالے سے معروف ۔ہم نے طالب علمی، زمانے میں، لاہور سے جڑانوالہ کے مشقت آمیز سفر کے بھی بہت لُطف اُٹھائے ، کم و بیش نصف یوم اس پر صَر ف ہوتا، پھر بتدریج سفری سہولتوں اور ذرائع نقل و حمل میں بہتری ہوتی گئی، جس کا نقطہ کمال لاہور ملتان موٹروے ہے ، جسے" سی پیک موٹروے" بھی کہا جاتا ہے ، جس کا افتتاح ہوئے ابھی ایک سال سے زائد نہیں گُزرا۔ اگر ابھی تک آپ اس کے ذائقے سے آشنا نہیں ہوئے، تو اس کو اپنی محرومی سمجھیں۔ لاہور ۔جڑانوالہ۔عبد الحکیم موٹر وے کے ساتھ، حدِنگاہ تک پھیلے ہوئے کھیت، کھلیان، سبزہ اور بیچو ں بیچ بَل کھاتی پگڈنڈیاں۔سبحان اللہ… آپ نے امریکہ اور یورپ کی کنٹری سائیڈز اور پھر اُن کے دیدہ زیب مناظر بھی ملاحظہ کیے ہونگے، بالخصوص اگر آپ واشنگٹن ڈی سی سے بذریعہ سڑک براستہ پنسلوانیا۔ فلاڈلفیا سے ہوتے ہوئے نیویارک جائیں تو اقبال کا یہ شعر اپنے پورے معنی و مفہوم کیساتھ جلوہ آرانظر آتا ہے: فردوس جو تیرا ہے، کسی نے نہیں دیکھا افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند لیکن جو دِلکش، خوبصورت ، بلکہ چشم کُشا اور فرحت بخش مناظر آپ کو اس موٹروے کے اِردگِرد نظر آئیں گے ، وہ یورپ اور امریکہ سے کسی بھی طرح کم نہیں ، یہاں کی روایتی کھیتی باڑی ، تاحدِنگاہ سبزہ، خوبصورت راہداریاں، کھیتوں کے درمیان کچّے مکان ، جسے وہاں کی مقامی زبان میں "ڈھاری" کہا جاتا ہے ، جس کے ساتھ فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے ٹیوب ویل اور فراہمی آب کے دیگر اہتمام، چند مویشیوں پر مشتمل محدودسا باڑہ۔اگرچہ سردیوں کے دنوں میں یہ مناظر آنکھوں میں یوں اُترتے ہیں کہ قلب و ذہن ترو تازہ ہو جائیں۔ آج کل تو " واڈھی" یعنی گندم کی کٹائی سے فراغت کے بعد، کسان آئندہ فصلو ں کی تیاری کے لیے زمین کو دوبارہ ترو تازہ کرنے ، ہل چلانے اور بیج بونے میں مصروف ہیں۔ حضرت شاہ جی صاحب کے ہر اول دستہ کو سرِ شام جڑانوالہ اِنٹر چینج پر اُترنا تھا ، جو کہ مجھ سے کچھ ہی فاصلے پر تھے ، اِ ن لمحوں کو غنیمت جانا جڑانوالہ اِنٹر چینچ پر، گاڑی روکی باہر نکل کر ان قدرتی اوردلاــ ٓ ویز دیہاتی مناظر کو آنکھوں میں جذب کرنے کی کوشش کی۔ظاہر ہے ، حدِ نگاہ تک پھیلے ہوئے لا متناہی حُسن و کمال کو آپ چند لمحوں میں کیسے اور کتنا سمیٹ سکتے ہیں۔جدید جڑانوالہ انگریز کا آباد کردہ ایک کا لو نیل شہر تھا ، جس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے 1907 ء میں "ٹائون پلاننگ" اور باقاعدہ منصوبہ بندی کیساتھ تعمیر کیا گیا ۔ شہر کے عین و سط میں غلہ منڈی تعمیر ہوئی اور پھر اس کے اردگرد آڑھت کی دوکانیں، آڑھتیوں کی رہائش گاہیں ، سکول ، ہسپتال، عبادتگاہیں، سرکاری دفاتر اور ان کی عمارات، ایسے جچے تُلے انداز میں ترتیب پائیں کہ کہیں بوجھل پن کا احسان نہ ہوتا، کھلے بازار ، پختہ، ہموار اور کشادہ گلیاں، امن و محبت اور باہمی الفتوں سے آراستہ شہری ، روادارانہ مذہبی ماحول جس میں کبھی کسی کشیدگی کا خاص واقعہ نہ ہوا۔ کچھ عرصہ پہلے تک، جب گرمیوں میں قریبی رشتہ داروںکے ہاں چھٹیاں گزارنے کی روایت ابھی باقی تھی، میرے تایا زاد اور چچا زاد بھائی ، یہاں آتے اور خوب مزا کرتے۔ اب جڑانوالہ ۔۔۔ اس طرح کا پُر سکون ، صاف ستھرا شہر نہیں ۔ دیگر شہروں کی طرح ، یہاں کی رہائشی آبادیوں کو بھی " کمرشل ازم" تیزی سے نگل رہا ہے ۔ شہر کئی منزلہ پلازوں اور ہیوی بلڈنگز کی زَد میں ہے ۔ نئی تعمیرات کا عمل مسلسل جاری ہے ۔ ڈیپارٹمِنٹل سٹورز، سُپر سٹورز، شاپنگ سِنٹرز ، ملک گیر کمپنیوں کی فرنچائزز اور تمام بڑے بینکوں کی بھر مار اور پھر شہر کے چاروں اطراف میں نت نئی ہائوسنگ سو سائٹیز اور رہائشی کالونیوں نے، اِس شہر کے حدود اربعہ کو لا محدود کردیا ہے ۔