ایسی ٹکسال کو کیا کہیے، جس کے سکّے، بظاہر مختلف ہوں، لیکن بباطن، بالکل ایک جیسے نکلیں! کسی بھی "جمہوری" ملک پر نظر ڈال جائیے، سیاست کی ٹکسال سے نکلی ہوئی، آپ کو دو جماعتیں ملیں گی۔ ایک کا تعلق دائیں بازو سے ہو گا اور دوسرے کا بائیں سے۔ مگر نتائج کے اعتبار سے، یہ ایک ہی ثابت ہوں گے۔ امریکا میں بھی بڑی پارٹیاں دو ہیں۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ۔ ایک آدھ کے سوا، ہر اہم موضوع پر اور اہم مسئلے میں، ان کی راے ایک دوسرے سے یکسر جْدا ہوتی ہے۔ پر حتمی تجزیے میں، یہ دونوں، عوام کو ایک ہی جانب ہانکتی ہیں۔ ان کا بیانیہ اتنا باسی، بلکہ بعض شاعروں کے کلام کی طرح، اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ بھول جاتے ہیں جو کوئی مصرع سامعین ان کو سنا دیتے ہیں یہاں کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتے ہی، اندازہ ہو جاتا ہے کہ کِس کی طرف سے، کیسا بیان سامنے آئے گا۔ یہی نہیں، دونوں بڑی جماعتیں، عوام کی آنکھوں میں دْھول، اپنا حق سمجھ کر جھونکتی ہیں۔ مثلا، نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے بارے میں، اس خاکسار نے، پچھلے سال ستمبر میں لکھ دیا تھا۔ "یقین ہے کہ حتمی امیدوار، اسٹیبلشمینٹ کا منظور ِنظر، یعنی سب سے نالائق ہو گا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ نے جن پر "سلیپی جو" یعنی "نیم خوابیدہ" کا لقب، چسپاں کر دیا ہے، ڈیموکریٹ امیدوار ہوں گے۔ موصوف نیند کے مارے نہ ہوتے، تو اس کا کچھ نشان باراک اوباما کے دور میں مل جاتا۔ آٹھ سال اوباما کی انہیں نیابت حاصل رہی، لیکن ایک پھَلی بھی انہوں نے پھوڑ کے نہ دی۔ بات مگر اس سے آگے کی ہے۔ جنس ِمخالف پر دست درازی کے جو الزامات، ٹرمپ پر لگائے گئے ہیں، وہ جو بائیڈن پر بھی لگائے جا رہے ہیں۔ اس معاملے میں موصوف ٹرمپ کے، کہنا چاہیے کہ ہم جنس ہیں! معاملہ یہاں بھی نہیں رْکتا۔ یہ صاحب خود کو عیسائی صیہونی قرار دیتے ہیں۔ اس ترکیب سے سر چکرا نہ جائے، سو وضاحت سْن لیجیے۔ ایک قوم دنیا میں اس قماش کی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ، یہودیوں سے بڑھ کر اسرائیل کے حامی ہیں۔ ان حضرت کی روشن خیالی اور کشادہ ذہنی کا سارا کارخانہ، اسرائیل پر پہنچ کر ٹھپ ہو جاتا ہے! جو بائیڈن کو گندم نما جو فروش کہنا چاہیے اور بقول ِرومی ع چہ بَرَد گندم نمای ِجو فروش؟ ( گندم دکھا کر جَو بیچنے والا سے کچھ بعید نہیں) ۔ یہ نتیجہ اس وقت نکالا گیا تھا، جب بائیڈن کی نامزدگی، خاصی دْشوار لگ رہی تھی۔ اب کورونا وائرس کو لیجیے۔ اس نے پوری دنیا کا، بھْرکس نکال دیا ہے۔ بڑی بڑی معیشتوں کا، ڈھیر ہو چکا ہے۔ بعض مسٹنڈے بزنس مین، جو آگے سنڈیاتے پھرتے تھے، ان کا بھی پلیتھن نکل گیا ہے۔ منیر نیازی نے گویا انہی حالات کے بارے میں کہا تھا۔ اک تیز رعد جیسی صدا، ہر مکان میں لوگوں کو ان کے گھر میں، ڈرا دینا چاہیے خوف اور بے یقینی کے ان دنوں میں بھی، نہیں بدلی تو ایک، بدبخت سیاست دانوں کی خْو نہیں بدلی۔ امریکا میں، اس مْوذی جرثومے نے، پچپن ہزار سے زیادہ افراد کو مار ڈالا ہے۔ یہ تعداد، بڑھتی جا رہی ہے۔ اوسطا، ہر روز، دو ہزار ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ امریکا کی موجودہ حالت کو سمجھنے کے لیے، نومبر میں ہونے والا صداتی انتخاب، پیش ِنظر رہنا ضروری ہے۔ امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو واحد کریڈٹ یہ دیا جاتا تھا کہ انہوں نے امریکن معیشت کو، نہایت مستحکم کر دیا ہے۔ کورونا وائرس، ان کا یہ واحد اعزاز بھی ختم کرتا جا رہا ہے۔ نتیجتاً، ٹرمپ اور ان کی جماعت کے رہنما، کوشاں ہیں کہ جلد از جلد، سارے کاروبار کھول دیے جائیں۔ اس میں لوگوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں، تو ان کی بلا سے۔ ڈیموکریٹس پورا زور لگا رہے ہیں کہ لاک ڈائون طْول کھینچتا جائے تاکہ معیشت کے ساتھ، ٹرمپ کا بھی تختہ ہو جائے۔ ان حالات میں، امریکن صدر کی بوکھلاہٹ اور پریشانی، قدم قدم پر ان سے لطیفے سرزد کرا رہی ہے۔ تین چار روز پہلے، موصوف نے تجویز کیا کہ سورج کی وہ شعاعیں، جو وائرس کا خاتمہ کر دیتی ہیں، انہیں کسی طرح بروے کار لایا جائے۔ یہاں تک تو پھر کچھ خیر تھی۔ یہ بھی فرما دیا کہ ہینڈ سینیٹائزر اگر جسم کے باہر، جراثیم کْشی کرتے ہیں تو انہیں جسم کے اندر کیوں نہ استعمال کیا جائے؟ اس پر نقادوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ پھبتی بازوں کو ایسا موقعہ خْدا دے۔ ایک نے کہا کہ جراثیم کْش دوائوں کا پہلا تجربہ، ٹرمپ پر کیا جائے۔ دوسرے نے کہا کہ ٹرمپ نے ٹھیک کہا۔ اس علاج کے بعد، مریض کورونا وائرس سے تو ہرگز نہیں مرے گا! دوسری طرف، ٹرمپ کی مقبولیت کا، اب بھی، یہ عالم ہے کہ مْلک بھر میں ان کے حمایتی، احتجاج کرنے کے لیے باہر نکل آئے ہیں۔ کوئی اس وائرس کو مصنوعی قرار دیتا ہے تو کوئی اس کے وجود ہی کا منکر ہے۔ تیسرے کے مطابق، یہ عام وائرس ہے اور اپنا کورس پورا کر کے، جلد رخصت ہو جائے گا۔ جن ریاستوں میں حاکم، ان کی جماعت کے گورنر ہیں، انہیں خوب امداد دی جا رہی ہے۔ اور جن ریاستوں میں مخالف جماعت کے گورنر ہیں، انہیں ہر روز لتاڑا جاتا ہے۔ امداد دی جاتی ہے تو جتا جتا کر اور ہزار طعنوں کے ساتھ ہزار مہنوں کے بعد۔ نیویارک جیسا امیر شہر، لاشیں کفناتے دفناتے ہار چکا ہے، مگر دونوں جماعتوں کے سیاستدان، اپنی سیاست، کہنا چاہیے کہ لاشوں پر بھی چمکا رہے ہیں۔ معیشت عارضی اور مادی چیز ہے اور اخلاقیات مستقل اور رْوحانی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک جرثومے کی وجہ سے، اخلاقی قدریں اس قدر کیونکر متاثر ہو گئیں؟ وہ جو اکبر نے کہا ہے کہ خْدا پرست بنائے گا کیا وہ لٹریچر کرے جو طبع کو آزاد اور گناہ پسند سو یہی حال اس جمہوریت کا بھی ہے، جس میں ہم اور آپ جیتے ہیں۔ اس میں انسان، نظام کا اسیر ہے، اسی کو جواب دہی سے ڈرتا رہتا ہے، پھر خْدا کا خوف اسے، کیسے آئے؟ا