ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہمارے بزرگ کم دوست اور پاکستان کے جانے مانے مزاح نگار ہیں لیکن ان کی دفتری و سرکاری ذمہ داریاں اتنی تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں کہ بعض اوقات سمجھ نہیں آتی کہ اُن کی کس بات پہ ہنسنا ہے اور کس امر کو سنجیدہ لینا ہے۔ وہ مزاحیہ مشاعروں کی جان تو ہیں ہی لیکن جب انھوں نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کا انتظام سنبھالا تو مستند کتابوں کے ڈھیر لگا دیے، حتیٰ کہ مجھ جیسے کاہل سے بھی یوسفی کی پانچوں کتب سے ایک انتخاب کروا لیا ، جسے 2019 میں ’’عالم میں انتخاب‘‘ کے عنوان سے چھاپا گیا۔ آج کل وہ وفاقی محتسب کے ساتھ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے کمشنر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انھوں نے اس ادارے کی کارکردگی کے حوالے سے جو ہوش رُبا تفصیل بتائی، یقین ہی نہ آیا کہ: ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی انھوں نے بتایا کہیوں تو وطن عزیز میں انصاف کے حصول کے لیے بہت سے ادارے مو جود ہیں تاہم وفاقی محتسب کے نام سے ایک ایسا ادارہ بھی 1983ء سے کام کر رہا ہے جہاںوکیل کی ضرورت ہے نہ فیس کی ، نہ کسی نو عیت کے اخراجات کی۔شکا یت کنندہ سادہ کا غذ پر بذ ریعہ ڈاک یا آن لائن درخواست دے سکتا ہے ، جس پر چوبیس گھنٹوںکے اندر کا رروائی شروع ہو جا تی ہے اور زیا دہ سے زیا دہ ساٹھ دن کے اندر فیصلہ کر دیا جا تا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ امر وفاقی محتسب کے ادارے پر لو گوں کے اعتماد کا مظہر ہے کہ سال 2020ء میں انصاف کے حصول کے لیے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں ریکا رڈ شکا یات مو صول ہو ئیں اور ریکا رڈ فیصلے کیے گئے۔ کرونا کے سبب دفا تر میں کام متا ثر ہو نے کے با وجود وفاقی محتسب سید طا ہر شہباز کی طرف سے متعارف کرا ئی گئی نئی حکمت عملی اور ٹیکنا لو جی کے بھر پور استعمال کے باعث وفاقی اداروں کے خلا ف ایک لا کھ تینتیس ہزارپانچ سو اکیس شکا یات درج ہوئیں، جن میں سے ایک لا کھ تیس ہزارشکایات کے فیصلے ہوئے ۔ واضح رہے کہ بیرون ملک پا کستا نیوں کی شکا یات اور ان کے فوری حل کے سلسلے میں وفاقی محتسب سیکر ٹر یٹ میں ایک شعبہ الگ سے قائم ہے، جو ہمارے ڈاکٹر صاحب کے زیر نگرانی خدمت میں پیش پیش ہے۔ پھر بچوں کے مسائل کے حل کے لیے ’’قو می کمشنر برائے اطفال‘‘ کے نام سے بھی ایک ادارہ کام کر رہا ہے۔ وفاقی محتسب سید طا ہر شہباز نے گزشتہ دنوں اپنے ادارے کی سالانہ رپورٹ صدر پا کستان ڈاکٹر عارف علوی اور چیف جسٹس گلزار احمد کو پیش کی۔دونوںنے نہ صرف ادارے کی کا رکر دگی کو سرا ہا بلکہ وفاقی محتسب کی تحسین کرتے ہوئے اس ادارے کو مز ید وسعت دینے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس ادارے میں سب سے زیا دہ شکا یات بے نظیر انکم سپو رٹ پروگرام کے خلا ف آئیں،جن کی تعداد چا لیس ہزارسے زائدہے۔ پھر وہ دس ادارے جن کے خلاف سب سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں ان میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں، سوئی گیس، نادرا، پاکستان پوسٹ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، پاکستان بیت المال ، پاکستان ریلوے ، اسٹیٹ لائف انشورنس ، آئی بی اور EOBI شامل ہیں۔ ان محکموں سے متعلق موصول ہونے والی اکثر شکایات فریقین کی رضا مندی سے نمٹائی جا چکی ہیں۔ وفاقی محتسب سیکر ٹر یٹ نے(OCR)کے نام سے ایک پائلٹ پروگرام بھی شروع کر رکھا ہے، اس پروگرام کے تحت تفتیشی افسران کو تاکید ہے کہ وہ تحصیل اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں عوام الناس کو مفت اور فوری انصاف فراہم کریں۔ ان اداروں میں آنے والی شکایات تیس دن میں حل نہ ہوں تو وہ ایک خودکار نظام کے تحت وفاقی محتسب کے کمپیوٹر ائزڈ سسٹم پر آجاتی ہیں اور ان پر کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب کی جیلوں کی اصلاح اور قیدیوں کی سہولتوں کے حوالے سے بھی ذمہ داری لگائی ہے کہ سفارشات پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنائیں نیز ذہنی مریض قیدیوں کو عام قیدیوں سے الگ رکھا جائے۔ وفاقی محتسب نے تمام وفاقی اداروں کو ہدایت کر رکھی ہے کہ ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازمین کے پنشن کے کیس ایک ماہ کے اندر مکمل کیے جائیں۔ انھوںنے اسلام آباد میں تعمیرا تی منصو بوں میں تاخیر کا بھی نوٹس لیا اور کام میں تیزی لانے کی ہدایت کی، جس کے نتیجے میں اکثر تعمیراتی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے بتایا کہ وفاقی محتسب پر عوام النا س کے اعتماد کے حوالے سے میڈ یا کا بھی اہم کر دار ہے۔ میڈیا نے وفاقی محتسب کی سرگرمیوں اور فیصلوں کو عوام تک پہنچا کر ان کے اندر آگہی پیدا کی، عام لوگوں کو میڈ یا ہی کے ذریعے معلوم ہوا کہ مفت اور فوری انصاف کے حصول میں وفاقی محتسب سے بلا روک ٹوک رجوع کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی محتسب سیکر ٹر یٹ اُردو اور انگر یزی میں سہ ما ہی نیوز بلیٹن بھی نکالتا ہے، اس سے بھی عوام میں شعور بیدار ہوتا ہے۔ علا وہ ازیں وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں آن لائن شکایات کی سماعت کی جا تی رہی، جس کے با عث شکایت کنندگان گھر بیٹھے سماعت میں شامل ہو تے رہے۔ وفاقی محتسب نے عوام کی سہو لت کے لیے کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ ، ملتان، فیصل آباد، حیدر آباد، بہاولپور اور گوجرانوالہ میں علا قا ئی دفا تر بھی قائم کر رکھے ہیں تا کہ لوگ اپنے قریب تر ین دفتر میں شکا یا ت کا اندراج کرا سکیں اور فوری انصاف حا صل کر سکیں۔ دوستو! اگر اس تمام کارکردگی میں مزاح کا مبالغہ شامل نہیں ہے تو اس ادارے کو یقیناً پاکستان کے دیگر اداروں کے لیے مثال بنایا جا سکتا ہے۔