غالب نے کہا تھا کہ: ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا کچھ ایسی ہی صورت حال ہماری ہے کہ ہماری معاشی اور اقتصادی صورت حال کو سنبھالنے ہمارا دوست قدم رنجہ فرما رہا ہے ایک اور شعر بھی بے محل نہیں کہ وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی ہم اس کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‘ ہائے ہائے مگر پنجابی زبان کا ایکس پریشن یعنی تاثر کہیں اور نہیں مل سکتا۔ اج خوشیاں دے نال مینوں چڑھ گئے نیں حال‘ جی آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہم بے حال کیوں ہوئے جا رہے ہیں کہ ہمارا سایہ بھی ہم سے دو قدم آگے جا رہا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے محسن سعودی ولی عہد محمد بن سلمان صاحب کا تاریخی استقبال ہوا ہے اور اس سے ہمارا اقبال بھی بلند ہوا ہے۔ عمران خان نے بنفس نفیس اپنی کابینہ کے ساتھ ان کا استقبال کیا ہے۔ حکومت کے تمام سٹیک ہولڈر بھی ولی عہد سے ملاقات کریں گے جس میں کچھ عہدو پیمان بھی ہونگے۔ محفلیں سجیں گی اور اگر کسی نے یہ گانا بھی چلا دیا تو سونے پہ سہاگہ ہو گا’’سجناں ایہ محفل اساں تیرے لئی سجائی اے‘‘ میں یہ سب کچھ تفنن طبع کے تحت نہیں لکھ رہا کہ سعودیہ کے ساتھ ہمارے رشتہ برس ہا برس کا ہے۔ بلکہ صدیوں پرانا ہے۔ یہ وہی رشتہ ہے جس سے ملت اور امت ترتیب پاتی ہے وہی جو خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی ’’نظریے اور عقیدے کا تعلق سب سے زیادہ مضبوط اور مربوط تعلق ہوتا ہے۔ وہ جو ماس کا ناخن سے رشتہ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اقبال نے ہی تو اس ضمن میں کہا تھا: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر اور یہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ یہی ہمارا دشمن یکجا نہیں ہونے دے رہا۔ وہ ہمارے درمیان انتشار پھیلائے رکھتا ہے۔ ہماری طاقت کو مجتمع نہیں ہونے دیتا۔ محمد بن سلمان یہاں آئے ہیں تو سمجھو اپنے گھر آئے ہیں بلکہ ہم تو سرزمین مقدس‘ مکہ اور مدینہ کو اپنے گھر سے کہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ ہمارا اصل مرکز و محور تو وہی دھرتی ہے جس کی فضائیں حضور کریمؐ کی سانسوں سے مہکیں۔ جہاں کی مٹی ہمارے لئے اکیسر ہے۔ جہاں کا آب زم زم آب حیات سے زیادہ معتبر‘ وہاں جا کے خانہ کعبہ کی زیارت کرنا اور روضہ رسولؐ پر حاضری دینا ہم میں سے ہر ایک کا خواب ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں سے ہمارا رشتہ عقیدت اور احترام کا ہے یہ ایک روحانی مسئلہ ہے۔اس کو ایک اور انداز سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ شاہ فیصل سے زیادہ پاکستان سے کسی اور نے پیار نہیں کیا۔ کسی نے درست پوسٹ لگائی ہے کہ جس طرح شاہ فیصل اور بھٹو کا یارانہ تھا اسی طرح محمد بن سلمان اور عمران کا تعلق بنتا نظر آ رہا ہے۔ گویا محمد بن سلمان بھی اسی طرح یہاں آ رہے ہیں‘ جیسے شاہ فیصل اسلامک سمٹ کانفرنس میں آئے تھے۔ بہرحال وہ آئے ہیں تو ہمارا حال کچھ اس سے کم نہیں کہ کہیں: اس نے پوچھا جناب کیسے ہو اس خوشی کا حساب کیسے ہو واقعتاً ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ولی عہد کا استقبال کیسے کریں۔ انہوں نے ہمیں تکلف میں پڑنے ہی نہیں دیا وہ اپنے استعمال کی چیزیں بھی اپنے ساتھ لائے۔ بلکہ ان کی سکیورٹی بھی اپنی ہے۔ بلکہ جہاز کو لگنے والی سونے کی بنی سیڑھی بھی شاید ساتھ ہو۔ دیگر سیڑھیاں تو اب ہم نے بھی چڑھنی ہیں۔ ایک بات کا اطمینان ضرور ہے کہ اگر امداد ملی تو عمران خاں امداد کو پاکستان کے لئے استعمال کرے۔ اس کا کم از کم مجھے تو سو فیصد نہیں ہزار فیصد یقین ہے۔ ایسے نہیں ہو گا جب ماضی میں ہوتا رہا کہ اگر سیلاب زدگان کے لئے کمبل اور کھجوریں آئیں تو وہ بھی حکومتوں نے مارکیٹ کر دیں۔ نقد دینے کا تو کوئی سوچتا بھی نہ تھا۔ ہمارے ایک وزیر اعظم نے ترکی کی خاتون اول کا خیرات میں دیا گیا ہار بھی اپنی بیوی کے گلے میں ڈال لیا تھا۔ خیر یہ باتیں چھوڑتے ہیں کہ اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے۔کبھی کسی کے آنے پر ہم نے بھی فی البدیہ کچھ کہا تھا: ساڈے ول اوہ انج آیا سی جیویں چھل جھناں لہراں اتے کھڑ کھڑ ہسے جلدے بجھدے ناں جس جس تھاں اس پیر دھرے تے نچن لگ پئی تھاں جی کردا سی سارے منظر اکھاں تے چک لان اب اس ویلکم کا اظہار اردو میں ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یقینا سعودیہ ہمارا محسن ہے ہر مشکل وقت میں ہماری مدد کو آیا ہے۔ ہماری بے رخی کے باوجود بھی انہوں نے اس رشتہ کو ٹوٹنے نہیں دیا کہ یہ رشتہ رحم کے رشتوں جیسا ہی ہے۔ وہی کہا گیا تھا کہ مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں کہ جسم کے کسی اعضا کو تکلیف ہو تو سارا جسم اسے برداشت کرتا ہے۔ ہماری ہدایت تو آئی ادھر سے ہے اور ہم ایمان کی تجدید کے لئے وہاں جاتے ہیں۔ انوار و اکرام کی جھولیاں بھر کر لاتے ہیں۔ کہاں احمد ندیم قاسمی یاد آئے: یہ کہیں خامئی ایماں ہی نہ ہو میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں معزز قارئین! یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ دونوں حکومتوں کے درمیان کئی معاہدے بھی ہو رہے ہیں یہاں وہ آئل ریفائنری بھی لگا رہے ہیں۔ میں نے ان باتوں کو دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جو اخبار میں چھپ چکی ہیں۔ میں نے فقط اپنی محبت اور تعلق کا اظہار کیا ہے اور میرا اپنا خیال ہے کہ تقریباً ہر پاکستانی ایسے محسوس کرتا ہے کہ شاہ فیصل سے لے کر محمد بن سلمان تک سب پاکستان سے محبت کرتے آئے ہیں اور پاکستان ایٹمی قوت کو وہ اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہیں سعودیہ کو بھی اگر کہیں ضرورت پڑی ہے تو ہمارے جوان ان کی مدد کے لئے پہنچے ہیں۔ اچھا ہے کہ ان کو 21توپوں کی سلامی دی گئی۔ یہ تو محاورتاً وگرنہ توپیں بڑھائی بھی جا سکتی تھیں۔ ولی عہد کا یہاں آنا نہایت ہی اہم ہے اور اس سے پاکستان کے نئے عہد کا آغاز ہو گا اس کی اہمیت کا اندازہ آپ یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ بھارت نے خود ہی دہشت گردی پاکستان کو دھمکیاں لگا کر اس دورے کو سبوتاژ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ جبکہ خود بھارتی دانشور بھی کہہ رہے ہیں کہ مودی ایک بار پھر الیکشن کے لئے کوئی سٹنٹ ڈھونڈنا چاہتے ہیں‘ وہ لاشوں کی سیاست کرنا چھوڑ دیں۔ ہائے ہائے ہمارے دوست بابا منظور احمد یاد آئے کہ ہم پی ٹی وی کے گانے لکھا کرتے تھے۔ ان کا ایک نغمہ یاد آیا جو انہوں نے میڈم نورجہاں کے لئے لکھا تھا آپ سب کو یاد ہو گا: روشن مری آنکھوں میں وفا کے جو دیے ہیں سب تیرے لیے ہیں‘ سب تیرے لیے ہیں چلیے محمد بن سلمان کے لیے ایک شعر: کوئی پلکوں پر لے کر وفا کے دیے دیکھ بیٹھا ہے رستے میں تیرے لیے