جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے بارے میں عدالتی حکم پر قائم جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد مرکز اور سندھ حکومت کے درمیان کشیدگی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ مرکز میں پی ٹی آئی حکومت کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی میں جن 172افراد کو جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ میں ملوث بتایا گیا ہے ان کے خلاف قانونی کارروائی میں سندھ حکومت رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزراء یہ تاثر دے رہے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ بعض لوگ صرف وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی بات بھی کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس صورت حال سے خاصی ناخوش دکھائی دیتی ہے اور وہ آئین سے منافی کسی اقدام کی مزاحمت کا اعلان کر رہی ہے۔ ہم ایک ایسی آبادی ہیں جو اجتماعی فکر کے حوالے سے ابھی قوم کے درجے تک نہیں پہنچ سکی۔ قوم صرف اس اجتماع کو نہیں کہتے جو ایک مخصوص جغرافیائی حدود میں سما جاتا ہے۔ قوم اپنے نفع نقصان کے سلسلے میں یکساں انداز میں سوچنے والی آبادی کو کہا جاتا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ اگر مالیاتی جرائم کی بیخ کنی کو سیاسی انتقام کہیں تو یہ المیہ ہے۔اس امر پر کسی کو اختلاف نہیں کہ پاکستان میں جمہوری نظام ہونا چاہیے۔ پاکستان کا آئین مکمل طور پر جمہوری ہے اور مرکز و صوبوں کے مابین تعلق کو واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کی 2شقوں کے تحت صوبے میں ایمرجنسی لگائی جا سکتی ہے۔ آرٹیکل 232کے مطابق صوبائی اسمبلی کی قرار داد کے تحت ایمرجنسی نافذ کی جا سکتی ہے۔ صوبائی اسمبلی کی قرار داد کے بغیر آئین گورنر راج کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح آرٹیکل 234کے تحت پارلیمنٹ کو ایمرجنسی کی توثیق کرنا ہو گی۔ اس توثیق کے بغیر ایمرجنسی دو ماہ سے زیادہ نہیں چل سکتی۔ سندھ اسمبلی میں قرار داد لانے سے قبل اراکین کے لحاظ سے جماعتی پوزیشن کو دیکھنا ہو گا۔168کے ایوان میں پیپلز پارٹی کے 99اراکین ہیں۔ تحریک انصاف کے 30‘ ایم کیو ایم اراکین کی تعداد 20ہے۔ جی ڈی اے سے تعلق رکھنے والے 14اراکین ہیں جبکہ 3تحریک لبیک اور ایک کا تعلق ایم ایم اے سے ہے۔ ایمرجنسی کے حق میں قرار داد لانے کے لئے اگر تمام جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہو جائیں تو پھر بھی 17اراکین کی ضرورت ہو گی۔ دوسری شق پر عمل کرتے ہوئے اگر پارلیمنٹ سے توثیق کا راستہ اختیار کیا جائے تو ایوان بالا میں پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کو اکثریت حاصل ہے۔ ان اعداد و شمار کا فطری توازن کسی غیر فطری انداز میں تبدیل کیا جاتا ہے تو پی ٹی آئی حکومت پر غیر آئینی اقدام کا دھبہ لگ سکتا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے پاس عوام کی جانب سے سونپا گیا مینڈیٹ ہے‘ اس مینڈیٹ کا احترام کیا جانا چاہیے تاہم گزشتہ گیارہ سال کی مسلسل حکومت کے باوجود دیہی اور شہری سندھ بدانتظامی‘ بدعنوانی اور اقربا پروری کے باعث تباہ حال دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی‘ حیدر آباد‘ سکھر‘ نواب شاہ اور لاڑکانہ جیسے شہروں میں نہ کوئی ٹرانسپورٹ نظام ہے نہ امن و امان کی حالت تسلی بخش ہے۔ آئے روز تھر میں معصوم بچوں کے مرنے کی اطلاعات آتی ہیں۔ ہسپتال اور تعلیمی اداروں کی حالت ناقابل بیان ہے۔ سندھ کے عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ جمہوریت اگر عوام کو با اختیار بنانے کا نظام ہے تو پھر سندھ کے عوام لاچار اور ان کے نمائندے مالدار اور بااختیار کس طرح بن گئے۔ کراچی شہر کو ہی لے لیجئے۔ یہ پونے دو کروڑ آبادی کا شہر ہے۔ یہاں جدید ٹرانسپورٹ کا نشان تک نہیں چھ سات سال پہلے گرین لائن بس منصوبے کا افتتاح ہوا مگر آج تک یہ منصوبہ رکا ہوا ہے۔ گزشتہ دور میں ن لیگ کی حکومت نے جب کراچی میں کچھ میگا ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا عندیہ دیا تو اسے صوبائی خود مختاری میں مداخلت قرار دیدیا گیا۔ تحریک انصاف کو کراچی شہر سے بھر پور مینڈیٹ ملا ہے۔ کراچی شہر میں کچرے کے ڈھیر‘ گلیوں میں کھڑا گندا پانی اور صاف پانی کی عدم فراہمی نے اس میٹروپولیٹن شہر کو کوڑے دان بنا دیا ہے۔ وفاقی حکومت یہاں صحت و صفائی کی حالت بہتر بنانا چاہتی ہے۔ نیا ٹرانسپورٹ نظام متعارف کرانا چاہتی ہے۔ بے گھروں کے لئے رہائشی سہولیات فراہم کرنا چاہتی ہے۔ مگر صوبائی حکومت ایک بار پھر اپنی خود مختاری کی آڑ لے کر عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھنے پر بضد ہے۔ بلکہ ایسی کوششوں پر کئی کمیٹیوں اور بورڈز سے گورنر کا نام نکلوا دیا۔یہ جمہوریت نہیں جس میں جماعتیں اور پالیسیاں چھوٹی ہو جائیں اور شخصیات اور ان کی ضد کو بڑا بنا دیا جائے۔ سندھ اور وفاق کو اپنے اپنے موقف کی بنیادوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات پر سب کا اتفاق ضروری ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں ہر صورت میں قانون اور آئین کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے۔ اس امر پر اتفاق دیگر بہت سے تنازعات سے بچنے میں مدد دے سکتا ہے۔ پاکستان ایک وفاق ہے۔ اس وفاق میں صوبوں کو بہت سے اختیارات مل چکے ہیں مگر اس بات کو کوئی بھی قابل تعریف نہیں قرار دے گا کہ کوئی جماعت اپنے مینڈیٹ کو بعض افراد کے جرائم کو چھپانے کے لئے استعمال کرے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے جمہوریت کے متعلق عوام میں شکوک پیدا ہونے کا احتمال ہے۔سیاسی جماعتوں کا وجود اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب سیاسی نظام فعال ہو۔ نظام کو فعال رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریق ریاست اور عوام کے مفادات کو اپنے گروہی و ذاتی مفادات سے بڑھ کر عزیز جانیں۔