اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے اقدامات جبکہ اس ضمن میں نیشنل کوآرڈینشن کمیٹی (این سی سی) کے فیصلوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جامع قومی پالیسی بنانے کی ہدایت کی ہے ۔ پانچ رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائر س کے بارے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے وبا سے نمٹنے کے لئے این سی سی کے 14 اپریل کے فیصلوں پر اور اٹھائے گئے اقدمات کی شفافیت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور جامع یکساں پالیسی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اگر حکومت نے اقدامات نہیں کئے تو عدالت اس حوالے سے عبوری حکم جاری کر نے پر مجبور ہو گی ۔عدالت نے قرار دیا کہ جن سیکٹرز سے وفاقی حکومت ٹیکس اکٹھا کرتی ہے وہاں صوبوں کی مداخلت کا اگلی سماعت پر جائزہ لیا جائے گا ، توقع ہے کہ این سی سی کے متوقع اجلاس میں معاملے کا از سر نو جائزہ لے کر اور پالیسی بناکر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔عدالت نے این ڈی ایم اے کے خلاف شکایات کا بھی نوٹس لیا اور آبزرویشن دی کہ این ڈی ایم کے خلاف شکایت ہے کہ وہ اپنے ہسپتالوں کو ضرروی سامان فراہم کرتا ہے اور جو بچ جائے وہ سرکاری ہسپتالوں کو دیا جاتا ہے ۔عدالت نے حاجی کیمپ میں قرنطینہ بنانے اور اسے ہاسٹل سٹی میں منتقل کرنے پر این ڈی ایم اے کے سربراہ سے وضاحت طلب کی اور قرار دیا کہ ادارے کا سربراہ بتائے کہ معائنہ کئے بغیر حاجی کیمپ میں قرنطینہ کیوں کھولا گیا اور پھر جگہ کیوں تبدیل کی گئی جبکہ اس سارے عمل پر خرچہ کتنا آیا؟۔ عدالت نے ڈبگری گارڈن پشاور میں پولیس کے ہاتھوں ڈاکٹروں کے ساتھ ناروا سلوک کا بھی نوٹس لیا اور سیکرٹری صحت سے رپورٹ مانگ لی، جبکہ مریضوں کے معائنے کے لئے پرائیوٹ کلینکس کھولنے اور سینٹری ورکرز کو حفاظتی لباس فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے زکوۃ اور بیت المال فنڈز میں مبینہ بے قاعدگیوں پر ریما رکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذکوۃ اورصدقات کے پیسوں میں شفافیت نہیں اور درست طریقے سے مستحقین کو نہیں دیے جاسکتے تو پھر اور کیا سو چا جاسکتا ہے ،پھر تو ہم بے حس ہوچکے ہیں،ملک کا ایک حصہ چلا گیا،کچھ حصوں میں آگ لگی ہوئی ہیں لیکن ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ کرنا کیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا جو کچھ ہورہا ، کاغذوں میں ہورہا ہے ،اربوں روپے خرچ ہوئے ،کسی چیز میں شفافیت نظر نہیں آرہی ،پلاسٹک گلوز ،ماسک اور ٹیسٹنگ کٹس پر اربوں روپے خرچ ہوئے ،قابل رحم حالت ہے ،لوگوں کے کاروبار بند ہوگئے ،سب کچھ بند ہیں لیکن افسران کو تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں،لوگوں کا مکمل استحصال ہورہا ہے ،یہ تو عوام کے خلاف سازش ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا ، صدر مملکت اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے لیکن کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا،جن شعبہ جات کو کھولا گیا ان کا عوام کو کیا فائدہ ہوا؟۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے کہا کہ سیاسی اتحادیوں کو زکوٰۃ فنڈز کا انچارج بنایا ہوا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت پیش کی اور بتایا کہ کچھ تکنیکی پہلوئوں کی وجہ سے زکوۃ اور بیت المال فنڈز میں بے قاعدگیوں کا تصور ابھرا ورنہ مذکورہ فنڈز میں کوئی بے قاعدگیاں نہیں ۔اٹارنی جنرل نے تجویز دی عدالت مداخلت نہ کرے اور سیاسی قیادت کو معاملات حل کرنے دیے جائیں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مداخلت نہیں کررہے ،لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہماری آئینی ذمہ داری ہے ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے مساجد کھولنے کے حوالے سے سوالات اٹھائے اور کہا کہ مساجد کھول دیں لیکن ایس او پی پر عمل نہیں ہورہا،کیا مساجد سے کورونا نہیں پھیلے گا؟مساجد کھول کر اور کاروبار بند رکھ کر کیا لوگوں کو بھوکا مارنا ہے ؟کیا سارا کورونا دکانوں میں گھس گیا ہے ۔ قبل ازیں کیس کی سماعت ہوئی تو وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل، این ڈی ایم اے ، وزارت صحت اور دیگرمتعلقہ محکموں کے حکام عدالت میں پیش ہوئے ۔ ایڈووکیٹ جنرلز نے ویڈیو لنک سے کارروائی میں حصہ لیا۔چیف جسٹس نے کہا اگر تھوک میں خریدا جائے تو 2 روپے کا ماسک ملتا ہے ، جتنی سرکاری رپورٹس آئی ہیں ان میں کچھ بھی نہیں، یہ ادارے کر کیا رہے ہیں، کسی چیز میں شفافیت نہیں، کوویڈ 19 کے اخراجات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات سامنے آئے گی۔ چیف جسٹس پاکستان کے استفسار پر ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز این ڈی ایم اے نے بنایا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پورے ملک میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں، جن کا روزگار گیا ان سے پوچھیں کیسے گزارا کر رہے ہیں، سندھ حکومت کہتی ہے 150 فیکٹریوں کو کام کی اجازت دیں گے ، جامع پالیسی بنا کر تمام فیکٹریوں کو کام کی اجازت ملنی چاہیے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہئیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کورونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے ، ہمارا گزشتہ حکم شفافیت سے متعلق تھا اس کو نظر انداز کیا گیا۔ بظاہر لگتا ہے کہ تمام اایگزیکٹیو ناکام ہوگئے ، وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور انا ہے ، ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں یکساں پالیسی بنائی جائے ، یکساں پالیسی نہ بنی تو عبوری حکم جاری کریں گے ۔اٹارنی جنرل نے کہا 9 مئی کے اجلاس میں حتمی فیصلے ہوں گے ، چھوٹی تجارتی سرگرمیوں کو بھی کھولنے پر غور کیا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہاسفید پوش افراد راشن کیلئے لائن میں نہیں لگتے ۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی تاہم اٹارنی جنرل کی استدعا پر قرار دیا کہ مزید سماعت اٹھارہ مئی کو ہوگی۔