72 کھرب 95 ارب روپے کا وفاقی بجٹ صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے ، اس میں سرائیکی وسیب کا کوئی منصوبہ شامل نہیں ، نہ ہی غریبوں کی تنخواہ میں اضافہ ہوا ہے ۔ بجٹ میں بعض علاقوں کو پسماندہ قرار دیتے ہوئے ان کیلئے اربوں روپے رکھے گئے مگر سرائیکی خطہ جس کی پسماندگی کا ذکر عمران خان اپنی اکثر تقریروں میں کرتے تھے کیلئے ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا ۔ بجٹ میں بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے 10 ارب ، سندھ کیلئے 29 ارب ، کے پی کے میں ضم فاٹا اضلاع کیلئے 56 ارب ، گلگت بلتستان کیلئے 32 ارب اور آزاد کشمیر کیلئے 72 ارب روپے رکھے گئے ، سوال ہے کہ سرائیکی خطے نے کیا جرم کیا ہے کہ اس سے مسلسل سوتیلی ماں کا سلوک ہو رہا ہے۔ حالانکہ عمران خان کی مرکز اور صوبے میں حکومت صرف اور صرف سرائیکی خطے کے مینڈیٹ کی وجہ سے برقرار ہے ، لیکن دوسروں سے زیادہ مجرم وہ ہیں جو وسیب سے محرومیوں کے خاتمے اور صوبے کے نام پر ووٹ لیکر گئے اور وسیب سے ہونے والے امتیازی سلوک پر خاموش ہیں ۔ وسیب بنیادی طور پر زرعی ریجن ہے لیکن کتنے ظلم کی بات ہے کہ زراعت ریلیف کیلئے صرف 10 ارب مختص کئے گئے ہیں ۔ سرائیکی وسیب کو ایک بھی ہسپتال نہیں دیا گیا جبکہ لاہور ،کراچی اور اسلام آباد کے نئے ہسپتالوں کیلئے 13ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی بجٹ میں کیا وسیب کا کوئی حصہ نہیں ہے؟ نئے صوبے کا حکومت نے وعدہ کر رکھا ہے ، ہم نے گزشتہ بجٹ کے موقع پر بھی مطالبہ کیا تھا کہ صوبائی سیکرٹریٹ کی تعمیر کیلئے وفاق بجٹ مختص کرے مگر موجودہ بجٹ میں بھی کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی ترجیحات میں وسیب کی ترقی شامل نہیں ۔ پچھلے صوبائی بجٹ میں کہا گیا کہ اب وسیب کے لئے مختص بجٹ وسیب پر ہی خرچ ہوگا اور ایک روپیہ بھی خزانے میں واپس نہیں جائے گا مگر کچھ خرچ نہیں ہوا ، اور تو اور تین ارب روپے سب سول سیکرٹریٹ کیلئے رکھے گئے ، جس میں ایک روپیہ بھی خرچ نہ ہوا اور رقم لیپس ہو چکی ہے ۔ وفاقی بجٹ میں کاشتکاروں کو کپاس، گنے اور دیگر اجناس کی کم قیمتوں کا ریلیف نہیں دیا گیا ۔ کھیت سے منڈی تک سڑکیں بنانے کیلئے اقدام نہیں ہوئے ۔ دیہی معیشت تباہ ہو چکی ہے، غریب کا زندہ رہنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ بجٹ میں بڑے بڑے کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کو ریلیف دیا گیا ۔ دیہاتوں میں چھوٹی صنعتوں کے قیام کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا ،بے روزگاری سے لوگ دوسرے صوبوں خصوصاً کراچی میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ۔ افسوس ان ارکان اسمبلی پہ ہے جو وسیب سے ووٹ لیکر اسمبلی جاتے ہیں مگر وہاں خاموش رہتے ہیں ۔ وفاقی بجٹ کے بعدپنجاب کا صوبائی بجٹ آ رہا ہے ،سرائیکی وسیب کو نظر انداز کیا گیا تو پسماندہ اور محروم خطے کا کیا بنے گا؟ صوبہ محاذ کے رہنماؤں خواجہ غلام فرید کوریجہ ، کرنل عبدالجبار خان عباسی اور عاشق بزدار نے کہا کہ ظلم ، زیادتی کی ایک حد ہوتی ہے ، موجودہ حکمران ن لیگ سے بھی بڑھ کر وسیب کے دشمن ثابت ہو رہے ہیں ۔ اسی بناء پر ہم سرائیکی خطے کیلئے الگ بجٹ کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں ۔وسیب کے لوگوں کا خیال ہے کہ سب سول سیکرٹریٹ کے ایشو کو سرائیکی وسیب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فنکاروں کی مالی امداد کیلئے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں ، ہم واضح کرتے ہیں کہ وفاق سے سرائیکی خطے کے کسی ایک فنکار کو امداد نہیں ملی ۔ یہ حقیقت ہے کہ وفاقی بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے۔ کسانوں کے اجناس کی قیمتیں بہت کم ہیں جبکہ ان کو ریلیف محض 2 سے چار فیصد دیا گیا ہے ۔موجودہ دور میں مہنگائی جس تناسب سے بڑھی ہے ، آئی ایم ایف اور عالمی اداروں کے دباؤ پر تنخواہیں اور غریبوں کی پنشن نہیں بڑھائی گئی ۔ جس سے تنخواہ دار طبقے میں تشویش پیدا ہوئی، ٹریڈ یونینز کے نمائندوں نے رد عمل میں کہا کہ محروم و پسماندہ علاقوں اور غریب طبقات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ترک نہ کی گئی تو ملک کی سالمیت کو قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ برسر اقتدار آنے سے پہلے تحریک انصاف برملا کہتی تھی کہ وسیب کے مسئلے صوبے کے قیام کے بغیر حل نہیں ہو سکتے ، الیکشن کے دوران سب سے بڑا انتخابی نعرہ صوبہ تھا اور تحریک انصاف کے لیڈران کرام وسیب کی محرومی کا ذکر اس انداز میں کرتے جیسے ذاکر مجلس پڑھتا ہے ، مجھے یاد ہے کہ شہباز شریف دور میں سول ججوں کی تعیناتیوں کو بہت اُچھالا گیا اور کہا گیا کہ 500 سول ججوں کی تعیناتی میں سے وسیب کو صرف 27 سول ججز ملے۔ حکمرانوں نے دوسرے محکموں کے اعداد و شمار بھی دیئے تھے ، مگر جب تحریک انصاف خود بر سر اقتدار آئی ہے تو صورتحال مزید بد تر ہو گئی ہے۔ حکومتی تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ کورونا کی موجودگی میں اس سے بہتر بجٹ نہیں آ سکتا تھا ، لیکن سوال یہ ہے کہ کورونا دو تین ماہ کی بات ہے ، اس سے پہلے عوام کو کیا ریلیف ملا ؟ کورونا کا فائدہ کم از کم عمران خان کو تو ہوا ہے کہ اب ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ۔ اس نازک موقع پر کوئی بھی سیاسی جماعت بر سر اقتدار آنے کی کوشش نہیں کرے گی ۔ کیا حکومت نے کبھی اس بات کی تحقیق کی کہ کرنسی ڈی ویلیو کرنے کے غیر حقیقت پسندانہ فیصلے سے ملک کو کتنا نقصان ہوا ؟ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان نے تو ناتجربہ کاری کا بہانہ بنا کر جان چھڑا لی مگر قوم کو جو عذاب بھگتنے پڑ رہے ہیں ، اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ آج GDPریٹ منفی پر چلا گیا ہے ، اس کا جواب کون دے گا؟ عجب بات یہ ہے کہ وفاقی بجٹ میں افغانستان کی بہتری کیلئے بھی فنڈ مختص کیا گیا ہے ، مگر پسماندہ سرائیکی وسیب نظر انداز ہے ، وزیراعظم کا افغانستان کیلئے گوشہ نرم ہے مگر ضیاء الحق دور سے مشرف دور تک پاکستان میں جو دہشت گردی ہوئی اس کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں ۔ اب بھی وزیرستان میں دہشت گرد پاک فوج سے لڑ رہے ہیں ۔ عمران خان کو اپنی سوچ اور اپنی ترجیحات بدلنا ہونگی کہ وہ سرائیکی کے صرف نام لینا تک گوارا نہیں کرتے ۔ جو لوگ پاک وطن کیلئے سکیورٹی رسک ہیں ان سے ہمدردی کیوں؟