وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2020-21ء کے لئے 72کھرب 95ارب روپے کے حجم کا بجٹ پیش کر دیا ہے ،جس میں 3437 ارب روپے خسارہ ہے جو کہ مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کا 7فیصد بنتا ہے۔ عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا جبکہ تنخواہیں اور پنشن نہ بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سیمنٹ ‘ خوردنی تیل‘ موبائل‘ موٹر سائیکل رکشے سستے‘ سگریٹ انرجی ڈرنکس مہنگے کر دیے گئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے یہ دوسرا قومی بجٹ پیش کیا ہے ۔ ٹیکس فری بجٹ ہونے کے ناطے عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم ہو گا، بجٹ سازی ایک پیشہ وارانہ مہارت اور وسیع علم رکھنے والوں کا کام ہے۔ پاکستان میں ایسے لائق افراد کی کبھی کمی نہیں رہی مگر ہر برس خسارے کے بجٹ سے ملک کے تمام اخراجات کا چلانا ناقابل فہم ہے۔ ہمارے ہاں بجٹ میں مختلف منصوبوں کے لئے جو رقوم مختص کی جاتی ہیں اس کی جانچ پڑتال کا بھی کوئی میکنزم موجود نہیں ہے، جس کے باعث آپ کسی بھی رقم کے خرچ ہونے کا درست معنوں میں اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ماضی میں ایسے کئی منصوبوں کے لئے بجٹ میں رقوم مختص کی گئی تھیں لیکن وہ پیسہ متعلقہ منصوبے پر خرچ ہی نہیں ہوا جس کے باعث بجٹ میں مختص رقم استعمال میں ہی نہیں لائی گئی ،اس لئے موجودہ حکومت کو ایک ایسا سسٹم بھی بنانا چاہیے جس سے اس بات کا علم ہو سکے کہ بجٹ میں مختص رقم منصوبے پر خرچ بھی ہوئی ہے یا نہیں۔ وفاقی وزیر حماد اظہر نے گزشتہ برس بجٹ تقریر میں اعلان کیا تھا کہ تحریک انصاف نئی سوچ ‘ نئی کمٹمنٹ اور ایک نیا پاکستان لائی ہے۔ جس میں ہماری 22سال کی جدوجہد اور لوگوں کی منشا شامل ہے۔ اب عوام کی زندگیاں بدلنے‘ عوامی عہدوں سے کرپشن ختم کرنے ‘ معیشت کو مضبوط بنانے اور اداروں میں میرٹ پر بھرتیاں کر کے ہم پاکستان کو آگے لے کر جائیں گے لیکن ایک برس گزرنے کے باوجود کرپٹ افراد سے نجات مل سکی نہ ہی انتخابی وعدوں پر عملدرآمد ہوا ہے۔ ٹیکسز میں ریلیف: حکومت نے حالیہ بجٹ میں کورونا کے باعث نئے ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا ہے یہ خوش آئند ہے اس کی ہر سطح پر تحسین کی جا رہی ہے کیونکہ کورونا کے باعث ہماری معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ لاک ڈائون کے باعث صنعتیں بمشکل اپنے وجود کو برقرار رکھ پا ئی ہیں۔ بیرونی دنیا سے لین دین بند ہے۔ حکومت نے پہلے بھی چھوٹے طبقے کے تاجروں کو بجلی بلوں میں ریلیف فراہم کر کے اچھا اقدام کیا تھا۔ بجلی بلوں کو تین ماہ کے لئے موخر کرنے سے چھوٹے طبقے کے کاروباری افراد نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا تھا لیکن حکومت کے نئے ٹیکسز عائد نہ کرنے کے حالیہ فیصلے سے کاروباری افراد بالخصوص عوام کو ریلیف ملے گا لیکن اس فیصلے کا عوام کو تب فائدہ ہو گا جب حکومت پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیا ضروریہ کی فراہمی بھی یقینی بنائے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 40سے 56فیصد کمی کی گئی ہے لیکن اس ریلیف کو مافیا نے یرغمال بنا لیا ہے۔ جس کے باعث عوام پہلے سے بھی زیادہ قیمت پر پٹرول خریدنے پر مجبور ہیں۔حکومت نے بجٹ میں صنعتوں پر نئے ٹیکس عائد نہیں کئے جس کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئیںکہیں ایسانہ ہو کہ اس ریلیف کو بھی بااثر لابی اچک لے ، اس لئے حکومت انتظامیہ کو متحرک کرے تاکہ حکومتی اقدامات سے عوام مستفید ہو سکیں۔ اگر حکومت ماضی کی طرح اب بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہی تو پھر عوام دوست بجٹ سے غریب آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ حکومت نے سیلز ٹیکس 14فیصد سے کم کر کے 12فیصد کر دیا ہے جبکہ شناختی کارڈ کے بغیر خریداری کی حد 50ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ تاجر برادری کا ایک عرصے سے مطالبہ تھا جسے کسی حد تک تسلیم کر لیا گیا ہے اس لئے اب تاجر برادری کو بھی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے تمام تاجروں پر زور دینا چاہیے کہ اپنے اپنے کاروبار کو رجسٹرڈ کروائیں اور ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں ،کاروباری طبقے کو ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی مد میں 45ارب روپے کا ریلیف فراہم کیا گیا ہے کورونا کے باعث تاجر برادری جو دبائو کا شکار تھی اس کی مشکلات کافی حد تک کم ہوں گی حکومت اگر شرح سود میں کمی کا اعلان کرتی تو اس سے کاروبار کو مزید فروغ ملتا ،حکومت کو مستقبل میں شرح سود میں خاطر خواہ کمی کرنا ہو گی۔ اس سے نہ صرف کاروباری طبقے کی مشکلات آسان ہو گی بلکہ حکومتی ٹیکس میں اضافہ ہو گا۔ دفاعی بجٹ میں اضافہ: وفاقی حکومت نے بھارتی خطرے کے پیش نظر پاک فوج کے دفاعی بجٹ میں 11.8فیصد اضافہ کرتے ہوئے دفاع کے لئے 12کھرب 89ارب روپے مختص کئے ہیں ۔ گزشتہ برس جب معاشی مشکلات زیادہ تھیں تب پاک فوج نے اپنے بجٹ میں اضافے کو قربان کرتے ہوئے قوم کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا تھا لیکن مکار دشمن بھارت کی طرف سے آئے روز کی چھیڑ چھاڑ کے باعث اب دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت آ گیا ہے ،اس لئے پاک فوج کے اخراجات میں اضافہ ناگزیر تھا۔لائن آف کنٹرول پر مودی سرکار آئے روز محاذ گرم کیے رکھتی ہے ،اپنے عوام کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹا نے کے لیے وہ پاکستان کا نام استعمال کر کے عوام کے دلوں میں نفرت کے بیچ بورہی ہے ۔چند روز قبل وزیر داخلہ امیت شاہ نے بڑھک لگائی تھی کہ مودی نے پاکستان میں کارر وائی کی اجازت دے دی ہے ،اس کے علاوہ مودی سرکار آئے روز سرجیکل سٹرائیک کی باتیں کرتی ہے، ان حالات میں پاک فوج کو دشمن کو 27فروری 2019کی طرح منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ پنشن اور تنخواہوں میں اضافہ: حکومت ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی تھی جبکہ بجٹ پر ہر برس کم از کم اجرت میں بھی اضافے کا اعلان کیا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے اس بار سرکاری ملازمین اور بوڑھے بے سہارا پنشنر کو مایوس کیا ہے۔ حکومت نے کورونا کو جواز بنا کر یہ اقدام اٹھایا ہے لیکن بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ایک سال میں مہنگائی کتنے فیصد بڑھی ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے نہ سہی کم از کم اس جان لیوا مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا۔ حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف رشوت اور لوٹ مار میں اضافہ ہو گا بلکہ مہنگائی کے ستائے سرکاری ملازمین سراپا احتجاج بن سکتے ہیں۔ یو ں سرکاری مشینری بھی تعطل کا شکار ہو گی۔ بجٹ کی تیاری سے قبل آئی ایم ایف نے یہ شرط عائد کی تھی کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا جائے۔ بعدازاں حکومتی حلقوں نے ایسی کسی بھی شرط کی بارہا تردید کی لیکن ہوا وہی جو آئی ایم ایف نے کہا تھا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ماضی کی طرح ہمارا حالیہ بجٹ بھی آئی ایم ایف نے ہی بنایا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان 22سالہ جدوجہد میں بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے لیکن حالیہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور بے سہارا پنشنر کے ساتھ حکومت نے جو سلوک کیا ہے۔ وہ ناقابل فہم ہے۔ کم از کم جرأت میں اضافہ نہ کرنا اس حوالے سے قابل تشویش ہے کہ مزدور طبقہ کے لئے پہلے ہی جان لیوا مہنگائی میں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہے۔ حکومت کو ساڑھے سترہ ہزار روپے میں ایک مہینے کا گھریلو بجٹ بنا کر بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔ حکومتی رٹ کا یہ حال ہے کہ ابھی تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ دوسری جانب قائد حزب اختلاف کے اخراجات کی مد میں 37لاکھ 32ہزار روپے اضافہ کیا گیا ہے۔ ایوان صدر کے باغات کی تزائن و آرائش کے لئے 4کروڑ 63لاکھ 75ہزار روپے رکھے گئے ہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔ قائد حزب اختلاف بھی جرأ ت کا مظاہرہ کرتے اور کہتے کہ میں بھی غریب سرکاری ملازمین اور دیہاڑی دار طبقے کے ساتھ کھڑا ہوں۔ جب تک ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتا تب تک بطور احتجاج یہ اضافہ قبول نہیں کرونگا لیکن یہاں تو ہر کوئی ھل من مزید کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سرکاری ملازمین اور بوڑھے پنشنر کی تنخواہوں میں سالانہ اضافے کا اعلان کریں یا پھر مہنگائی کو گزشتہ ایک برس والی جگہ پر لے کر جائیں ،انہیں دونوں کاموں میں سے کوئی ایک کام ضرورکرنا ہو گا ،اگر وہ اس معاملے پر اپنا قائدانہ کردار ادا نہیں کرتے تو پھر حکومت اور بیورو کریسی میں دوریاں پیدا ہونا شروع ہو جائیں گئی۔ سرکاری ملازمین حکومتی کاموں میں روڑے اٹکائیں گے، جس کا مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شاید نقصان نہ ہو کیونکہ وہ بوریا بستر اٹھا کر باہر چلے جائیں گے جبکہ پی ٹی آئی کو مستقبل میں اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا جو ناقابل تلافی ہو گا اس لئے انہیں اس غلطی کا ازالہ کرنا چاہیے۔