وزیر اعظم عمران خاں کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں این سی سی کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔ وزیر اعظم نے کابینہ کو غیر ضروری اخراجات ختم کرنے اور کفایت شعاری اپنانے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں احتسابی عمل جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اس وقت ملک میں بلا امتیاز احتساب کا سلسلہ جاری ہے۔ نیب بھر پور طریقے سے متحرک ہے جبکہ حکومتی صفوں میں کسی جگہ کوئی بدعنوانی نظر نہیں آتی، اگر کوئی وزیر‘ مشیر یا معاون خصوصی ‘ کمیشن یا کک بیکس میں ملوث پایا جاتا ہے تو حکومت اس سے فوراً استعفیٰ طلب کر لیتی ہے جبکہ نیب اپنے قانون کے مطابق اس سے تفتیش کرتا ہے۔ ماضی میں پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان اور وزیر جنگلات کو جب نیب نے گرفتار کیا تو انہوں نے اپنے عہدوں سے خود ہی استعفیٰ دے دیا تھا، گندم کے بارے رپورٹ آئی تو صوبائی وزیر خوراک نے وزارت سے علیحدگی اختیار کر لی جبکہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی‘ماضی میں اوپر سے لے کر نیچے تک آوے کا آوا ہی گڑا ہوا تھا۔ کرپشن پر نیب متحرک تھا نہ ہی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس کا نوٹس لیتے تھے، یوں ہر کوئی حسب توفیق قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرتا رہا لیکن عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد احتساب کے عمل کو تیز کر دیا گیا، نیب نے ملک سے بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے لئے دن رات محنت کر کے کرپٹ عناصر سے لوٹا ہوا مال واپس لیا۔ نیب اپنے ماٹو’’احتساب سب کے لئے‘‘ پر سختی سے عمل پیرا ہے۔2017ء کے مقابلے میں2018ء میں نیب کو دوگنا شکایات موصول ہوئیں۔2018ء کے دوران نیب لاہور کو 10ہزار 98شکایات موصول ہوئیں جو اس ادارے پر عوامی اعتماد کا اظہار ہے۔ ان میں نیب نے 9ہزار 207شکایات کا جائزہ لے کر انہیں نمٹا دیا جبکہ 74ریفرنسز دائر کئے گئے ۔ 2019ء میں نیب کی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ نیب لاہور نے 19برس کا ریکارڈ توڑتے ہوئے مجموعی طور پر ایک برس کے دوران 29ارب 93کروڑ روپے کی ریکوری کی جبکہ کرپشن‘ بدعنوانی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے میں ملوث 136ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔2019ء میں نیب لاہور کو 13ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں ۔ ماضی میں بھی یہ ادارہ موجود تھا لیکن ماضی کے حکمرانوں نے اس ادارے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بنیادوں پر اس ادارے کو استعمال کر کے اس کی ساکھ کو متاثر کیا تھا۔ من پسند احتساب کا ڈھونگ رچایا گیا۔ کرپٹ سیاسی افراد کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتابعدازاں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کے عوض انہیں کلین چٹ دے دی جاتی۔ سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں اس ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔سیاسی جماعتوں کے حصے بخرے کر کے نئی پارٹیاں تخلیق کی گئی۔ بعد ازاں الیکشن میں انھیں حصہ بقدر جثہ دے کر ایک کمزور ترین پارلیمنٹ کی بنیاد رکھی گئی جس کے باعث قوم کا اس ادارے سے اعتماد اٹھ گیا تھا لیکن موجودہ چیئرمین نیب نے ایک بار پھر بلا تفریق احتساب کی بنیاد رکھ کر عوامی اعتماد بحال کیا ہے۔ نیب نے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کیس میں طلب کیا لیکن وہ بیماری اور کرونا کا بہانہ بنا کر اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے جوابات دینے نہیں آئے ،جس کے بعد نیب نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ روپوش ہو گئے اور بعدازاں عدالت سے عبوری ضمانت کروا لی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بقول میاں شہباز شریف انہوں نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی اور اپنے اثاثہ جات کو انہوں نے ظاہر کیا ہے تو پھر انہیں نیب کے سامنے یا پھر عدالت میں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے جوابات دینے چاہئیں یہ لوگ ماضی میں اپنے ملازمین کے ناموں پر کاروبار کرتے رہے ،اب انکشاف ہونے پر راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ( ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے گزشتہ روز بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ ملازم کے نام پر اکائونٹ کھولنا یا ٹرانزیکشن جرم نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف پیپلز پارٹی یا ن لیگ ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھی بھی اپنے ملازمین کے ناموں پر اکائونٹ کھلوا کر منی لانڈرنگ کا دھندا کرتے رہے ہیں جس کی وسیع پیمانے پر تحقیق ہونی چاہیے۔ چیئرمین نیب رانا ثناء اللہ کے بیان کی روشنی میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کریں تاکہ سبھی گمنام چہروں سے پردہ ہٹ سکے۔ وفاقی کابینہ نے احتساب بلا تفریق جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے یہ واقعی قابل ستائش ہے کیونکہ جب تک بے رحم احتساب نہیں ہوتا تب تک غریب کی حالت کو بدلنا مشکل ہو گا۔ نیب جن لوگوں کو پکڑ رہا ہے ان سے لوٹا ہوا مال واپس لیتے وقت عوام کو بھی آگاہ کرے کہ کس سیاستدان نے کتنا پیسہ واپس کیا ہے، اس سے عوام کا نیب کے ادارے پر اعتماد مضبوط ہو گا۔ حکومت سندھ سے 172افراد کے کرپشن میں ملوث ہونے کے بارے اب تک کی پیش رفت سے قوم کو آگاہ کرے، اس کے علاوہ وہ لوگ جو پٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کے باوجود اشیا ضروریہ کے ریٹس کم نہیں کر رہے، یقینا وہ بڑے بااثر لوگ ہیں، ان کے بارے میں کوئی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ حکومت کے احتساب کا عوام کو تب فائدہ ہو گا جب غریب آدمی کے گھر میں دو وقت کی روٹی میسر ہو گی ،اس لئے غریبوں کو ریلیف دینے کے بارے میں کوئی لائحہ عمل تشکیل دیں۔