وفاقی وزیرمذہبی امور نورالحق قادری نے اپنے خصوصی خط میں وزیراعظم عمران خان کو تجویز کیا تھا کہ اس بار عورت مارچ کے بجائے 8 مارچ کو’’ یوم ا لحجاب‘‘ منایا جائے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ نام نہادحقوق نسواں کی کارکنان نے عورت مارچ پر پابندی کی تجویز پر وفاقی وزیرسے استعفیٰ دینے کامطالبہ کردیا۔سوال یہ ہے کہ وفاقی وزیر کے وزیراعظم کوخط کا پس منظر کیا ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس خط کاپس منظر گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں 8مارچ کے عورت مارچ میں مچائی گئی اودھم اور ہورہی بے حیااورفحش قسم کی نعرہ بازی ہے ۔ ہم اس امر کے عینی گواہ ہیں کہ2020ء اور 2021ء کوبالخصوص 8مارچ کویوم خواتین کے موقع پردارالحکومت اسلام، آباد کے بشمول پاکستان کے تمام بڑے شہروںکی سڑکوں پرعورت مارچ ہوا تو اسے دیکھ کرشرم آتی تھی ۔ خواتین کادن منانے کی آڑ میں پاکستان میںبے حیائی اورفحاشی کا پرچار کیا گیا۔حقوق نسواں کے نام پرجو ماحول بنایا جا رہا ہے اس سے ہمارے معاشرے کی بیخ کنی ہورہی ہے ۔ ہمارے ماحول اورہمارے معاشرے میں اگر کوئی عورت اپنے ان جائز حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے جواسلام نے اسے عطاکرکے فرش سے عرش پہ بٹھا دیا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ جائز حقوق سے مراد وہ کہہ سکتی ہے کہ مجھے تعلیم دی جائے ،میری شادی میں میری پسند کا خیال رکھا جائے،والد کی جائیداد سے مجھے میرا حصہ دیاجائے ۔ لیکن جب عورتیں ناجائز مطالبات پیش کریں گی تو ایسے مارچ پر پابندی لگانا حکومت وقت پرفرض ہوگا کیونکہ اس سے ایسے مسائل تو پیدا ہوتے ہیں جواسلام سے صریحاًمتصادم ہیں۔ دراصل یہ صرف چند خواتین کا ٹولہ ہے جو غیرملکی فنڈنگ اور این جی اوز کے ذریعے پورے ملک کی خواتین کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے لیکن خطرہ تو بہرحال موجود ہے کہ ایسی مہم سے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔کچھ خواتین بہک بھی سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں واقعتاً خواتین کے بے پناہ مسائل ہیں اور انہیں اظہار کرنے کا موقع بھی بہت کم ملتا ہے۔ اصل مسئلہ غیر اخلاقی نعرے اور غیر ملکی ایجنڈے کا ہے۔ ہمیں ایک معاشرے کے طور پر چاہیے ان خواتین کی حوصلہ افزائی کریں آگے بڑھ کر خواتین کے حقیقی مسا ئل کو اجاگر کریں اور ان کا حل بھی تلاش کرنے کی کوشش کریں تاکہ این جی اوز مافیا اور مادر پدرآزادی کے حامی ایلیٹ ٹولے کی حقیقت بے نقاب کی جا سکے۔ پچھلے برسوں میں نکلنے والے عورت مارچ میں اصل مسائل پر بات کرنے کی بجائے بے ڈھنگے اور غیر اخلاقی معاملات اٹھائے گئے۔ 2020ء اور2021ء کے عورت مارچ میںجس مختلف قسم کے بداخلاقی ،بے حیائی اوربے شرمی پرمبنی پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ان سے پتا چلتا ہے کہ ہم کس کھائی کی طرف لڑھکتے چلے جارہے ہیں۔ یہ ریلیاںلاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور، اور کوئٹہ سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں نکالی گئی تھیں ۔ ان ریلیوں میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں بات کرنے سے زیادہ مردوں کو دھمکیاں دی گئیں جیسے اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھو ، عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں،کھانا گرم کر دوں گی بستر خود گرم کر لو۔ اب مرد تو کیا کوئی معقول عورت بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ ریلی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے نکلی تھی۔ ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی تھی جس میں تین عورتوں نے ایک لڑکے کو کتے کی مانند بٹھایا ہوا تھا۔ایک پوسٹر بھی بڑا وائرل ہوا جس پر لکھا ہوا تھا ماں کا، نانی کا، دادی کا سب کا بدلہ لیں گے!اس عورت مارچ میں شریک ہونے والی عورتوں اور مردوں کے حوالے سے جب آپ جاننے کی کوشش کریں گے توپتاچل جائے گا کہ اس عورت مارچ میں شرکاء کا عورتوں کے حقیقی مسائل سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا تھا۔وہ لڑکیاں جو مرد اور ریپ سے آزادی کے نعرے لگا رہی تھیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ جس طرح مرضی کپڑے پہنیں مرد نظریں جھکا کر گزریں۔مارچ میںکئی عورتوں نے گانوں پر ڈانس کیا، اپنا دوپٹہ ایک علامت کے طور پر اچھالا اور اس حرکت پر داد بھی وصول کی۔ سچ یہ ہے کہ خو اتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے کئی شہروں میں ہونے والے عورت مارچ کے پلے کارڈز تو گزشتہ برسوں میں زیر بحث رہے ہی ہیں۔ لیکن اس برس قوس قزح کے رنگوں والے پرچم بھی دکھائی دیے جو ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عورت مارچ کے آغاز سے قبل بعض نوجوان ایل جی بی ٹی تحریک کا جھنڈا ہاتھوں میں لے کر فریئر ہال کراچی کے مختلف کونوں میں تصویریں لگاتے رہے۔ کچھ نوجوان اسی رنگ کے ماسک اور شرٹس پہنے بھی نظر آئے۔ایک اسلامی ملک میں ایسی بے حیا کمیونٹی کا ذکر تو کیا، تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اسلام ہی نہیں،عیسائیت سمیت دیگر مذاہب میں بھی اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ان لوگوں کو ذرا بھی خیال نہیں کہ حضرت لوط علیہ السّلام کی قوم پر عذاب کیوں آیا تھا؟اب اس سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ یہ مردوں کو اپنا دشمن مانتی ہیں۔ المختصر!گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں عورت مارچ کے ریکارڈ کوسامنے رکھتے ہوئے ہر باغیرت پاکستانی نورالحق قادری کی رائے کوصائب قراردیتا ہے اوراس دن کویوم الحجاب کے طورپر منانے کی مکمل حمایت کرتا ہے ۔