اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ اِس زمین پر لاکھوں کی تعداد میں مختلف مخلوقات پائی جاتی ہیں لیکن اْن میں سے ا فضل اور اعلیٰ انسان کو ہی بنایا اور پھر اِس انسان پر ہی اپنے فضل اور کرم کی انتہا کر دی کہ اِس کو اپنانا خلیفہ بنا دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا علیہ السلام کے وجود سے انسانیت اِس دنیا میں پھیلی پھولی۔ انسان ہمیشہ اپنے لیے نفع اور شہرت کا طالب گار رہتا ہے یہ سب کچھ صرف اور صرف اپنے لیے حاصل کرنا چاہتااور پھر نامور ہونا چاہتا ہے یہی شہرت اور لالچ اِس کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں مگر یہ پھر بھی باز نہیں آتا۔ حسد، جھوٹ، دھوکہ، مکر، فریب اور نہ جانے کیا کیا کچھ ہم ایک دوسرے سے کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو چکا ہے اِ س مقدس ماہ میں ہم مسلمان یہ اولین کوشش کرتے ہیں۔ مخلوق خدا کے ساتھ ا پنے رب کو بھی زیادہ سے زیادہ راضی کر لیں لیکن دوسری طرف جس بے دردی کے ساتھ ہمارا تاجر طبقہ ، دکان دار طبقہ اپنی ہی عوام کو لوٹنا شروع کر دیتاہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے ایک طرف زکوۃ دینے میں ہمیں ناگواری محسوس ہوتی ہے اور دوسری طرف ہم عوام کو خود ساختہ مہنگائی کر کے لوٹتے ہیں۔ ہماری چونکہ پلاننگ یہی ہوتی ہے کہ ہم نے مرنا نہیں ہے پھر جب اللہ تعالیٰ کی آزمائش شروع ہوتی ہے تو ہم عدم برداشت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی آزمائش کے قابل ہی کہاں اس لیے تو انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ یہ زبان شہرت، غیبت اور جھوٹ کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اْس کے شکر کے لیے بنائی گئی ہے۔ بہت کم انسان ایسے ہوتے ہیں جو اْس پاک ذات کا شکر ادا کرتے ہیں۔ جب ہم صحت مند اور طاقت ور ہوتے ہیں ۔ خدا کی زمین پر ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے علاوہ کوئی اور ہے ہی نہیں ۔یہ دنیاوی عہدے ، مرتبے یہ پروٹوکول یہ دنیا کی شہرت ، زیب و زینت سب عارضی اور نا پائیدار چیزیں ہیں بلکہ یہ دنیا تماشا گاہ ہے اور اِس میں کھو جانے والا اصل میں نقصان اْٹھتا ہے۔ سیاست اور صحافت ، شوبز یہ ایسے شعبے ہیں کہ جن میں شہرت ہی شہرت ہے۔ سیاست میں بھی شوبز کے لوگوں کی طرح اداکاری کی جاتی ہے۔ دھوکہ اور فریب دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بڑے بڑے نامور سیاست دان پیدا ہوئے اور چلے گئے پاکستا ن بننے سے قبل سکندر حیات پنجاب کے بڑے با اثر سیاست دان ہوا کرتے تھے اور وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے اْن کے والد عمر حیات خان کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ جس دن سکندر حیات کی وزارت اعلیٰ کی حلف برداری ہونا تھی تو پورے پنجاب (متحدہ پنجاب ) سے تمام بڑے نواب ، سردار تمن دار اور جاگیردار اْس حلف برداری میں موجود تھے سکندر حیات نے وزارت اعلیٰ کا حلف اْٹھایا تو اْس کے والد عمر حیات خان نے اپنے بیٹے کو گلے لگاتے ہو ئے مبارک باد دی تو کچھ دیر کے لیے اپنے بیٹے کو جان بوجھ کر کھڑا کیے رکھا بعد میں جب کچھ دوستوں نے عمر حیات سے پوچھا کہ آپ نے حلف برداری کے بعد ایسا کیوں کیا اْنہوں نے جواب دیا کہ چونکہ ہمارے خاندان میں پہلی مرتبہ ہمیں اتنا بڑا اقتدار مل رہا تھا اور پھر دوسری طرف پورے پنجاب سے بڑے نواب اور تمن دار سردار موجود تھے تو میری یہ خواہش تھی کہ میں اپنے بیٹے سکندر حیات کو اپنے ساتھ کھڑا کیے رکھوں کیونکہ سب لوگ اْن کے احترام میں کھڑے رہے تو میرے دل میں یہی خواہش تھی کہ آج پورا پنجاب کچھ دیر کے لیے ہمارے احترام میں کھڑا رہے۔ یہ ہوتی ہیں چھوٹی چھوٹی خواہشات کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ لیکن اِن کا انجام پھر بڑا بھیانک اور خوفناک ہوتا ہے آج وہی عمر حیات ٹوانہ ہیں کہ ان کا خاندان گمنامی میں جا چکا ہے سکندر حیات اور خضر حیات کی نسلوں کا بھی پتہ نہیں کہ کہاں کھو گئی ہیں اور نہ ہی زمانے کو اب اْن کے کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔ یہی دنیا ہے لیکن ہم نہیں سمجھتے ہماری صحافت میں نہ جانے کتنے نامور لوگ آئے اور چلے گئے صرف چند ایک نام زندہ ہیں اس لیے کہ وہ پر خلوص لوگ تھے اْنہوں نے حق لکھا اور حق کو پوری قوت ایمانی کے ساتھ بیان کیا جن میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان ، آغا شورش کاکشمیری ، حمید نظامی وغیرہ وگرنہ سینکڑوں صحافی تھے آج اْن کے نام اور اْن کی تحریروں کو لوگ فراموش کر چکے ہیں۔ اسی طرح شوبز کی دنیا جو شہرت کی سب سے بڑی منڈی ہوا کرتی ہے لیکن کیا ہوا ماضی کے پاکستانی نامور اداکاروں کو ذرا یاد کر لیتے ہیں کہ جن کو دیکھنے کے لیے سڑکیں بلاک ہو جایا کرتی تھیں پاکستانی فلم انڈسٹری کہ نامور اداکار ستارے لالہ سدھیر ، سلطان راہی ، سنتوش کمار، درپن، علاؤ الدین، محمد علی ، ندیم بیگ، یوسف خان ، حبیب مظہر شاہ ، اعجاز درانی ، اس طرح خواتین اداکاروں میں میڈم نور جہاں ، نیلو، مسرت نذیر ، زیبا ، رانی اور نہ جانے کتنی خوب صورت اداکارائیں تھیں ۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے دور میں یہ لوگ قوم کے ہیرو تھے ۔ لاہور کے میٹرو پول سینما میں جب 1964ء میں لاہور کے مشہور کردار اچھا پہلوان شوکر والا کی مشہور زمانہ پنجابی فلم ملنگی ریلز ہوئی تھی تو ہر طرف اکمل اور مظہرشاہ کی بڑھکوں کے چرچے تھے۔ بلکہ ایک مرتبہ جب ذوالفقار علی بھٹو ، ایوب خان کے خلاف لاہور لکشمی چوک سے ایک بہت بڑے احتجاجی جلوس کی قیادت کر رہے تھے تو اِس دوران لکشمی بلڈنگ پر کھڑے اداکار مظہر شاہ نے اپنی پاٹ دار آواز سے بھٹو کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بڑھکیں مارنا شروع کر دی تھیں کہ جس پر ذوالفقار بھٹو کو اپنا جلوس روک کر مظہر شاہ کا شکریہ ادا کرنا پڑا تھا۔ لیکن پھر کیا ہوا وہی مظہر شاہ جب بوڑھا ہو گیا تو لاہور کی گو لمنڈی میں انتہائی بوسیدہ لباس میں دوسروں سے سوال کرتا نظر آیا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو قید ہو گئے وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور پھر انسان ہاتھ مَلتا رہ جاتا ہے۔