معیشت کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں آ رہی ہیں جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ پاکستان کا کارپوریٹ سیکٹر شاندار کار کردگی دکھا رہا ہے ۔گزشتہ سہ ماہی میں پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی کوارٹر کے منافع کا ریکارڈ توڑ کار کردگی سامنے آئی ہے ۔ سٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ کمپنیوں نے پچھلی سہ ماہی میں 243ارب روپے کا منافع کمایا ،جنوری سے مارچ تک سالانہ بنیاد پر منافع میں 82 فیصد جبکہ سہ ماہی بنیاد پر گیارہ فیصد اضافہ ہوا۔ سٹاک ایکسچینج میں حکومتی لسٹڈ کمپنیوںکے منافع میں سالانہ بنیاد پر پندرہ فیصد اور پچھلے سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں 33 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پرائیویٹ کمپنیوں کے منافع میں سالانہ بنیاد پر 119فیصد ،سہ ماہی بنیاد پر پانچ فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔سرکاری کمپنیوں کی کار کردگی نجی کمپنیوں سے بہتر رہی ہے،سال کی پہلی سہ ماہی میں بینکوں، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں، انرجی اینڈ پاور ،ٹیکسٹائل اور سیمنٹ کے شعبے نے بہترین کار کردگی دکھائی ہے،گزشتہ سال 2 ارب کا نقصان اٹھانے والے سیمنٹ سیکٹر نے 15 ارب کا منافع کمایا ہے۔ اسی طرح بینکوں نے بھی 15 ارب کا منافع کمایا ہے۔ یہی نہیں گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال اپریل میں تیل مصنوعات کی فروخت میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کا حجم اب 16 لاکھ 70 ہزار ٹن تک پہنچا اور مالی سال کے 10 ماہ میں ٹوٹل پراڈکٹ کی فروخت 19 فیصد سے ایک کروڑ 58 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ہے ۔مارچ کے مقابلے میں پچھلے ماہ تیل کی فروخت 13 فیصد بڑھ گئی اس کے علاوہ فرنس آئل کی فروخت میں بھی پچھلے 10 ماہ کے دوران 48 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ان تمام اعدادو شمار سے ثابت ہو رہا ہے کہ صنعتی ترقی کا پہیہ گھوم رہا ہے،معیشت کا پہیہ گھوم رہا ہے اور آنے والے مہینوں میں صنعتی ترقی اور روز گار میں اضافے کا مزید باعث بنے گا۔ مارچ ختم ہوا تو دیکھاگیا کہ سٹاک مارکیٹ میں جو ٹاپ کی 100 کمپنیاں ہیں جسے ہنڈرڈ انڈیکس کہا جاتا ہے اس کا ریکارڈ منافع 240 سے 250 ارب روپے بنتا ہے ۔ان سو کمپنیوں نے یہ منافع کمایا ہے۔یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سہ ماہی میں ریکارڈ منافع ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق اگر مارچ 2021 کا مارچ 2020 سے مقابلہ کریں تو یہ منافع میں دوگنا اضافہ ہے لیکن پچھلے سال کوویڈ شروع ہو چکا تھا ،لاک ڈائون شروع ہو گیا تھا۔پچھلے سال تین سیکٹرگھاٹے میں تھے جو اب منافع کما رہے ہیں ،ریفائنری،آئل مارکیٹنگ اور سیمنٹ انڈسٹری۔اگر ہم دسمبر سے دیکھیں تو بھی 12 سے 13 فیصد اضافہ یعنی 20 سے 25 ارب روپے منافع کمایا گیا ہے ،بینکوں نے بھی بہت اچھا منافع کمایا ،سیمنٹ سیکٹر اور آئل مارکیٹنگ نے بہت اچھا منافع کمایا ہے۔ٹیکسٹائل سیکٹر نے بھی دسمبر 2020 کے مقابلے میں بہت منافع کمایا ہے۔ماہرین کے مطابق ان سیکٹرز میں جو منافع بڑھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دو تین سال کی سست روی کے بعد اکنامک ریکوری دیکھ رہے ہیں۔ کوویڈ کے بعد جب سے ترسیلات زر شروع ہوئی ہیں پاکستان کی ٹریولنگ کم ہو گئی ہے،شرح سود کم ہوئی، کرنسی جو ہمیشہ کمزور رہتی تھی وہ نہ صرف مستحکم ہوئی ہے بلکہ مضبوط ہوئی ہے۔ یہ سارے عوامل تھے جس کی وجہ سے مارچ کے کوارٹر میں کمپنیوں نے ریکارڈ منافع کمایا۔امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں اگر اسی طرح معیشت چلتی رہی ، امن وامان کی صورتحال بہتر رہی ،کورونا کی تیسری لہر پر اگر قابو پالیا گیا تو بہت سارے سیکٹرز میں مزید بہتری ہو گی۔ روز گار کے مواقع بڑھیں گے۔پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کی کار کردگی گزشتہ سال ڈیڑھ سال سے بہت اچھی جا رہی ہے ۔کوویڈ کے بعد جب سے پاکستانی روپیہ بہتر ہوا ہے اور ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لوگ راغب ہوئے ہیں تب سے پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے،اس کے علاوہ آئی ٹی انڈسٹری ایکسپینڈ ہو رہی ہے۔ حال یہ ہے کہ آئی ٹی انڈسٹری کو ماہر نہیں مل رہے سٹاک مارکیٹ میں جو آئی ٹی کمپنیاں ہیں انکی آمدنی شاندار ہے۔ مارچ2020 سے لیکر مارچ2021 تک ان کمپنیز نے کئی گنا منافع کمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو سافٹ وئیر بن رہا ہے اسکی ڈیمانڈ یورپ اور امریکا میں بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ کوویڈ کے جو حالات ہیں، جو لاک ڈائون کے حالات ہیں، اس میں لوگ ترجیح دے رہے ہیں کہ ان پرسن چیزیں نہ ہوں ساری چیزیں ڈیجیٹلائیزڈ ہوں جس کی وجہ سے دنیا بھر کی آئی ٹی سافٹ وئیر کمپنیز خاص طور پر پاکستان کی کمپنیوں کی سیل بھی بڑھ رہی ہے اورمنافع بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کی حکومت کے پاس اب صرف دو سال بچے ہیں لیکن حکومت کی مقبولیت اور سیاسی درجہ حرارت کے حوالے سے حالات حکومت کے حق میں نہیں ہیں حکومت کی کچھ پالیسیاں غریب عوام کے لیے بہتر نہیں رہیں، خاص طور پر حکومت مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ حکومت کے پاس اب دو سال ہیں کچھ سمجھ آ گئی ہے اور حکومت عوامی فلاح کیلیے کچھ کام شروع کر رہی ہے جیسے گھروں کی تعمیر شروع کی جا رہی ہے یہ ایک اچھا کام ہے۔لیکن اگلے دو برسوں میں اگر بے روز گاری کم ہوتی ہے، مہنگائی کم ہوتی ہے تب لگے گا کہ حکومتی اقدامات ٹھیک ہیں، اگر یہی صورتحال رہی تو تحریک انصاف کے لئے اگلا الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا ۔ عمران خان نے نئی معاشی ٹیم بڑی تاخیر سے میدان میں اتاری ہے ۔شوکت ترین کو نیا وزیر خزانہ بنایا گیا ہے، یہ چوتھے وزیر خزانہ ہیں ۔ اسکے علاوہ وزیر اعظم نے نئی ایڈوائزری کونسل بنائی ہے۔معاشی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ عوام کو کیسے ریلیف دیا جائے اگر کہا جائے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔پاکستانیوں کو اس صورتحال سے نکالنے کی ذمہ داری اب شوکت ترین کے پاس آئی ہے۔ وہ گزشتہ چند دنوں سے اپنا ہوم ورک کر چکے ہیں ۔شوکت ترین کا کہنا ہے کہ اگلے دو سے تین سال میں پاکستان میں گروتھ ریٹ 5 سے6فیصد تک جا سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر سال 20 لاکھ نوکریاں دینی ہیں اس کے لئے اقدامات کر رہے ہیں ۔اب معاشی حالات کچھ بہتر ہو رہے ہیں،زراعت میں سوائے کپاس کے تمام فصلیں اچھی ہوئی ہیں۔ ابھی کوویڈ تھری آ گیا ہے جس سے کچھ پریشانی ہے لیکن یہ بھی گزر جائے گا ۔کوویڈ کا پیک ختم ہو گیا اب یہ آہستہ آہستہ نیچے کی طرف جائے گا۔ساری باتیں ٹھیک ہیں سارے اشارئیے ٹھیک ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کو ریلیف ملے۔ عوام کو ریلیف نہ دیا گیا تو یہ حکومت کی اصلاحات کی بیل منڈے نہ چڑھ پائے گی۔