وہ دیوار سے ٹیک لگائے گھٹنوں میں سردیئے ہوئے بیٹھا تھا ، مجھے اس شخص تک پہنچانے والے سپاہی نے اسے آواز دی ،سپاہی کی آواز پر دیوار سے لگی گھٹڑی میں حرکت ہوئی اس نے سر اٹھایا او ر پھر دو ویران آنکھیں ہم پر آجمیں سپاہی نے اس سے میرا تعارف کرایا اور کہا انہیں صاحب نے بھیجا ہے تم سے دو چار منٹ باتیں کرنا چاہتے ہیں اس مبہم تعارف پر اس نے میری طرف وضاحت طلب نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کال کوٹھڑی میں موت کا انتظار کرنے والے قیدی سے کون اور کیوں ملنا چاہے گا؟ میں نے اسے اپنا تعارف کرایاکہ صحافی ہوں او ر سینٹرل جیل کراچی پر ایک رپورٹ بنارہا ہوں ۔یہ غلط بھی نہ تھامیرے جیلر سے دوستانہ مراسم تھے اس لئے میں کال کوٹھڑی تک بھی پہنچ گیا،میری بات پر اس نے جیسے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی اور شستہ انگریزی میں گویا ہوا’’میں اس کال کوٹھڑی میں خوش آمدید نہیں کہنا چاہوں گا‘‘ اس قیدی سے میں ایک گھنٹہ بات کرتا رہا اس پر اپنے دوست کے قتل کا الزام تھا سیشن کورٹ سے سزائے موت سنائی جاچکی تھی ہائی کورٹ میں کیس چل رہا تھااس نے کھل کر باتیں کیںاور دوسرے قیدیوں کے برعکس خود کو بے گناہ قرار نہیں دیا بلکہ کھل کر کہا کہ ہاں میں نے قتل کیا ہے معاملہ میری عزت اور غیرت کا تھا اسے امید تھی کہ ہائی کورٹ میں فیصلہ اسکے حق میں ہوگا اس قیدی سے بہت سی باتیں ہوئیں لیکن اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر جو بات آخر میں کہی وہ نہیں بھولتی کہنے لگاجس روز عدالت میںپیشی ہوتی ہے وہ میرے لئے عیدکا دن ہوتا ہے کہ میں سلاخوں سے باہر آزاد دنیا دیکھوں گا،چہچہاتی چڑیا ں دیکھوں گا،سڑکوں پر بلیاں کتے دیکھوں گا، اپنے جیسے بہت سارے لوگوں کو دیکھوں گا۔ ان کتے بلیوں کو دیکھنا بھی عیاشی لگتی ہے سچ کہتا ہوں موت سے زیادہ اذیت ایک انسان کی دوسرے انسان سے فاصلے میںہے ۔ ٓآج کی کورورنا زدہ دنیا کو جیل بنا دیکھ کر مجھے کال کوٹھڑی کے اس قیدی کے کہے یہ جملے بے طرح یاد آرہے ہیں ،اس وقت سات ارب ستتر کروڑ کی آبادی میں چھ ارب زمین زاد گھروں میں قید ہیں فاصلوں پر رہ رہے ہیںجو جتنا سمجھ دار ہے وہ اتنے ہی فاصلے پر ہے کہ جینے کے لئے اب فاصلہ ضروری ہے۔ دنیا اس وائرس کا پھینکا جانے والاموت جال توڑنے کے جتن کر رہی ہے کیا گورے اور کیا کالے سب مل کر اس کاتریاق تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تادم تحریر تک دنیا بھر میں اموات ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد ہوچکی ہیں ۔سترہ لاکھ تریاسی ہزار انسانوں پر یہ حملہ آور ہوچکا ہے پچاس ہزار سے زائد اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ،وہ لوگ جو خدا بنے پھرتے تھے آج انہیں خدا یاد آرہا ہے ،امریکہ جیسی سپر پاور نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں وہاں ہاتھ کشکول بن چکے ہیں زندگی اور موت پر قدرت رکھنے والے زندگی کی بھیک مانگی جارہی ہے کل حالات بدتر تھے تو آج بدترین ہیں کل صورتحال خوفناک تھی تو آج بھیانک ہے ۔ پاکستان پر بھی یہ وبا حملہ کرچکی ہے اس سے لڑنے کے لئے ہمارے پاس دو بنیادی ہتھیار ہیں ایک ’’احتیاط‘‘ اور دوسرا’’علاج ‘‘،علاج کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں سرکاری غیر سرکاری چھوٹے بڑے سارے ملا کر لگ بھگ 1,18,869 اسپتال ہیں ،جہاں ہمیں 2,20,829رجسٹرڈ ڈاکٹردستیاب ہیں ،اس حساب سے تقریبا963 پاکستانیوں کے لئے ایک ڈاکٹر اور 1608افراد کے لئے اسپتال کا صرف ایک بسترہے یہاں ایک انار سو بیمار والا محاورہ بھی استعمال نہیں کرسکتے کہ بیمار سو نہیں سولہ سوہیں ،کورونا وائرس کے حملے میں متاثرہ افراد کو سب سے زیادہ مصنوعی تنفس کی ضرورت پڑتی ہے اور پورے ملک میں محض 2200 سے 2500وینٹیلیٹر ہیں۔ وفاقی وزیر سائئنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری کے مطابق ان میں سے بھی صرف 1500کارآمد ہیںسیدھے سادے الفاظ میں جب امریکہ اور جرمنی جیسی بڑی قوتیں اس بلا کا مقابلہ نہیں کرپارہیں تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ اب ہمارے پاس صرف احتیاط کا راستہ رہ جاتا ہے جس کے لئے کسی ڈاکٹر ،اسپتال یا ارسطو، افلاطون، ابن خلدون ہونے کی ضرورت نہیں اسلام آباد کا احسان الرحمٰن بھی وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو ٹوبہ ٹیک سنگھ کا چوہدری طفیل کے اختیار میں ہے اور رونا یہ کہ ہم یہی نہیں کررہے۔ سب سے تشویش ناک صورتحال ہمار ے دیہی علاقوں میں’’مختیاریوں ‘‘ کی ہے۔خیبر پختونخواہ کے دیہی علاقوں اور سابقہ فاٹا میں صورتحال زیادہ ابتر ہے کہ وہاں کوئی ایسا بھی نہیں جو انہیں گھروں میں رہنے کے لئے سمجھائے کیا ڈراہی دے ،یہاں آگہی کے فقدان پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ،کے پی کے کی اکیاسی فیصد آبادی دیہات میںرہتی ہے جن سے جڑی سیاسی قیادت اس وقت بھی نفاق کے بیج بو رہی ہے پشتون قوم پرست تنظیموں میں سے کسی ایک نے بھی کورونا وائرس کے حوالے سے کوئی آگہی کا پروگرام ترتیب نہیں دیا ۔میں مہینے بھر کے اخبارات کھنگال بیٹھا ہوں،یہ راشن او رفنڈز کے مطالبات او ر حکومت پر تنقیدکے سوا کچھ نہیں کر رہے،پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک شاعر،ادیب اور وکیل رہنما کا وڈیو کلپ وباکی طرح پھیلا ہوا ہے جس میں وہ پبلک میٹنگ میں بنا ماسک اور گلوزکے گیان دھیان بانٹنے کے بعد کہہ رہے ہیں کورونا تو پیسے لینے کا بہانہ ہے اس جماعت کی جانب سے معصوم پشتونوں کو سمجھایابتایا نہیں جارہا کہ اس وقت سماجی فاصلے ،موت سے فاصلے کی ضمانت ہے۔ تمام قوم پرست پشتون مشران ، بزرگوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس بھی چیک کر چکا ہوں کاش کہیں سے زندگی کا کوئی ایک پیغام مل جائے؟ کوئی خبرمل جائے اور میںکہوں کہ خیبر پختونخواہ کی اکیاسی فیصد دیہی آبادی کے لئے بھی سوچنے والے ہیں لیکن اس وقت کڑے وقت میں بھی پشتون قوم پرست سیاست دانوں کو سیاست کی سوجھ رہی ہے کاش وہ سمجھ سکیں کہ سیاست انسانوں سے عبارت ہے اور اس وقت معاملہ انسانیت ہی کا تو ہے !