گزشتہ چار پانچ روز سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ کشمیری انتہائی ہولناک کرفیو کی زد میں ہیں۔ وہ گھروں میں محبوس ہونے پر مجبور ہیں جذبہ آزادی کو پابہ زنجیر کرنے کے لئے 9لاکھ بھارتی فوجی کشمیر میں تعینات ہیں۔ ہر گھر کے باہر دو تین فوجی بندوقیں تانے کھڑے ہیں۔ دنیا کی ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کس شان سے اپنے شہریوں کا سواگت کر رہی ہے۔ نہ تحریک ‘نہ تقریر ‘نہ تحریر کسی بات کی بھی آزادی نہیں۔ انٹر نیٹ اور ٹیلی فون بھی بے جان پڑے ہیں۔ ہمارا کشمیریوں سے اور کشمیریوں کا ہم سے کوئی رابطہ نہیں۔ اپنی بے حسی ‘ کشمیریوں کی جبری نظر بندی اور عالمی کمیونٹی کی بے ضمیری کے بارے میں سوچ سوچ کر دل بہت اداس تھا۔ جب ایسی افسردگی اور اداسی میرے نہاں خانہ دل میں ڈیرے جما لیتی ہے تومیں ایک صاحب دل بزرگ سے رجوع کرتا ہوں۔ ان سے حال دل بیان کیا۔ قدرے توقف کے بعد فرمایا مایوسی کی کوئی بات نہیں اللہ کی نصرت قریب ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے کشمیر کے بارے میں چند اشعار بھی سنائے۔ جو آج بہت حسب حال معلوم ہوتے ہیں۔ نوابزادہ صاحب فرماتے ہیں: موت اک سلسلہ وہم و گماں آج کی رات زندگی ولولہ عزم جواں آج کی رات اپنی فطرت سے ہے مجبور ہنومان کی قوم مرغزاروں سے بھی اٹھتا ہے دھواں آج کی رات ارض کشمیر کے جانباز جوانوں کو سلام رشک فردوس ہے وادی کا سماں آج کی رات سرخرو ملت بیضا کو کیا ہے تم نے محو حیرت ہوئیں اقوام جہاں آج کی رات وقت نے دی ہے تمہیں چارہ گری کی مہلت آج کی رات، مسیحا نفساں آج کی رات یوں تو فواد چودھری سے ہمارے ایک سو اختلافات ہیں مگر یہ بات جو انہوں نے کہی ہے وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پر امریکہ یا عرب کی باتیں نہیں ہمارا اقدام اہم ہے۔ انہوں نے ساری قوم کی ترجمانی کی ہے کہ: مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے آج قاضی حسین احمد زندہ ہوتے تو بھارت کے اس بہیمانہ اقدام کے خلاف اس وقت تک حشر اٹھا چکے ہوتے۔ بھارت نے جس طرح سے بین الاقوامی اور علاقائی ہر معاہدے اور قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اور جانباز کشمیریوں کو توپوں اور سنگینوں کے سائے میں محبوس کیا ہے اس پر تو پہلے روز ہی پاکستان میں کہرام بپا ہو جانا چاہیے تھا۔ کشمیری اشیائے خورو نوش سے محروم گھروں میں مقید ہیں اور ہم اپنے گھروں میں ہنسی خوشی معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے معمولات میں ذرا سا فرق بھی نہیں پڑا۔ ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا مرد خلیق قاضی حسین احمد آج زندہ ہوتا تو پہلے روز ہی کراچی سا خیبر اپنی قوم کے لاکھوں مرد و زن اور بچوں بوڑھوں کو سڑکوں پر لا کر سید علی گیلانی اور اس کی قوم کو پیغام دے چکا ہوتا کہ تم اکیلے نہیں ہو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں قاضی حسین احمد دنیا کو بتا چکا ہوتا کہ ہم زندہ قوم ہیں۔5فروری کا یوم یکجہتی کشمیر قاضی حسین احمد کا آئیڈیا تھا۔1990ء میںاس کا آغاز ہوا اس وقت پنجاب میں میاں نواز شریف کی اور مرکز میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی مگر قاضی حسین احمد کی واجب الاحترام شخصیت کی سب نے تکریم کی اور ان کی تجویز پر آمنا و صدقنا کہا۔ پہلا ہی یوم یکجہتی اتنا عظیم الشان تھا کہ کراچی سے لے کر نیلم کنارے مظفر آباد تک انسانوں کی زنجیر تھی اور دنیا جوش جذبے کے ساتھ گھروں سے نکلی ‘تب سے لے کر اب تک پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ آزادی کشمیر کی پاکستان میں اونر شپ جماعت کے پاس تھی۔ مگر آج قاضی حسین احمد والے جذبے اور لمحے دیکھنے میں نہیں آ رہے۔ 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے وقت کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر بھٹو نے 28فروری 1975ء احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیا۔ اتنا زبردست احتجاج ہوا اور اتنی کامیاب ہڑتال ہوئی کہ لوگوں نے اپنے جانوروں تک کو پانی نہ پلایا۔ آج ہم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور دنیا کو اپنے اتحاد و اتفاق کا پیغام دینے کے لئے گزشتہ دو تین روز سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کر رہے ہیں۔ اجلاس کی کارروائی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قومی نمائندوں میں بالغ نظری کا فقدان ہی نہیں قحط ہے۔ ایوان میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور مشترکہ ہدف پر فوکس کرنے کی بجائے پرانی رنجشوں کے حوالے سے دے کر ایک دوسرے کو کوسا گیا اور سندو ترش زبان استعمال کی گئی۔ بتایا گیا اور یوں اپنی یکجہتی کا بھانڈا پھوڑا گیا۔ قومی ایمرجنسی کے اس نازک موقع پر اگر روٹین کی گرفتاریاں اور کارروائیاں چند روز کے لئے موخر کر دی جائیں تو اتحاد کے نقطہ نظر سے بہتر ہوتا۔ مجھے یورپ اور امریکہ وغیرہ سے کئی قارئین اور دوستوں نے اطلاع دی ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور مودی کے انسانیت سوز مظالم کی بھر پور مذمت کے لئے احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد ہو رہے ہیں۔ انتہائی حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ان ریلیوں میں صرف پاکستانی اور کشمیری ہی نہیں عرب بھی ہیں اور انڈین بھی خاص طور پر امریکہ کی سکھ کمیونٹی 9اگست بعد نماز جمعہ نیو یارک میں انڈین قونصل خانے کے باہر مودی کے اقدام کے خلاف اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرہ کر رہی ہے۔ دس اگست بروز ہفتہ ٹائم سکوائر نیو یارک میں بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔ اتوار کو چھ بجے شام ڈیلس ٹیکساس میں بہت بڑا مظاہرہ ہو گا اسی طرح ہوسٹن میں بھی انڈین قونصل خانے کے باہر احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔ہم کئی بار عرب ممالک میں مسئلہ کشمیر پر عرب ممالک میں سیمینار منعقد کرنے اور وہاں عربی میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی تجویز دے چکے ہیں۔ استاد گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی سے حال دل بیان تو انہوں نے اپنے اشعار ارشاد فرمائے: دل شکن لاکھ سہی وادی کشمیر کا حال سبب یاس نہیں بلکہ بقول اقبال رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے ایک بار پھر فواد چودھری کی بات ‘کیا ہمارا اقدام اہم ہے۔ اگر جناب عمران خان نیو یارک میں 20ہزار لوگوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں تو پاکستان میں کشمیر سے اظہار یکجہتی کے لئے وہ بیس لاکھ کی بڑے شہروں میں دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر ریلیوں کا اہتمام کر سکتے ہیں اور دنیا کو میسج دے سکتے ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر سب ایک ہیں۔اسی طرح وہ بلا تاخیر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ کر کے پوچھیں کہ کیا یہ ہے وہ ثالثی ‘جس کی آپ نے پیشکش کی تھی۔ اسی طرح مغربی اور عرب ممالک میں وفود بھیجیں۔ قدرت نے عمران خان کو تاریخی کردار ادا کرنے کا موقع دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس موقع سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں ؎ وقت نے دی ہے تمہیں چارہ گری کی مہلت آج کی رات مسیحا نفساں آج کی رات