پتھر اور مردہ دلوں پر سیلاب کا کیا اثر ہو گا؟یاد رکھیے ! جو فیصلے بروقت نہیں کئے جاتے، وقت ان کا فیصلہ خود کرتا ہے اور وقت کا فیصلہ بے رحم ہوتا ہے۔دو چار دن کی بات نہیں،پون صدی کا قصہ ہے۔اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں،تو پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔سوائے ایٹم بم اور موٹروے کے۔ہمسائیوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ایک عبقری شخصیت تھی۔موت نے آپ کو مہلت نہ دی۔اس کے بعد کوڑا کرکٹ۔ہر کسی نے ملک کو لوٹا۔یہاں تک کہ سیلاب اور زلزلہ متاثرین کی امداد بھی ہڑپ کرنے سے گریز نہ کیا۔ ترک خاتون اول کا ہار ایسے اٹھایا جیسے ذاتی مال ہو ۔نصف صدی سے کالا باغ ڈیم بنانے کا نعرہ بلند ہوا، کبھی سندھ کے وڈیرے اور کبھی خیبر پی کے کے گاندھی اس عظیم منصوبے کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔دونوں کا موقف جھوٹا۔نہ سندھ ریگستان بنے گا نہ نوشہرہ ڈوبے گا ۔ اس وقت نہ صرف نوشہرہ بلکہ آدھے سے زیادہ سندھ کالا باغ ڈیم بن چکا ہے۔ جانی اور مالی نقصان الگ۔ متاثرین کی بحالی ایک چیلنج۔ تکلیف، دکھ اور اذیت علیحدہ۔ارب پتی سیاستدان اپنے خزانوں کا منہ نہیں کھول رہے حالانکہ وہ اس سے بخوبی آگاہ ہیں کہ صرف دو گز زمین اور سفید لٹھا ہی ساتھ جائے گا۔باقی اللہ کا نام۔ہر کسی کو نامہ اعمال ملے گا۔کسی کے دائیں ہاتھ میں اور کسی کے بائیں ۔قرآن مجید میں ارشاد ہے : جس کا نامہ اعمال پیٹھ کے پیچھے دیا گا ،وہ موت کو پکارے گا اور دوزخ میں داخل کیا جائے گا ۔ تب حکمرانی کام آئے گی نہ ہی کسی کا حسب و نسب۔پوری قوم مصیبت میں گھری ہوئی ہے۔اس آزمائش کی گھڑی میں جو ان لاچاروں کے ساتھ کھڑا رہا،اسی کی سیاست قائم ۔باقی کچھ نہیں۔ سیاستدان متاثرین کے پاس خالی ہاتھ مت جائیں۔قائم مقام گورنر سندھ سراج درانی کا کیا حال ہوا، مستقبل ایسے بھیانک واقعات سے بھرا پڑا۔ آئی ایم ایف نے کہا: کہ آئندہ برس مزید مہنگائی بڑھے گی، 47سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا۔مگر مستقبل مزید مشکل۔ملک گیر پرتشدد مظاہرے‘ جلائو گھیرائو، ایک خوفناک منظر ہمارا منتظر۔ بن جانسن نے کہا تھا:بہت سے لوگ اس سے آدھی محنت میں جنت میں جا سکتے ہیں، جو وہ جہنم میں جانے کے لیے کرتے ہیں۔ ایک روپیہ خرچ کریں گے تو 70گنا زیادہ ملے گا۔مگر ہم روپیہ پیسہ اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ زکوۃ نکالتے ہیں نہ عشر وغیرہ۔ ہر سچائی تین مرحلوں سے گزرتی ہے: پہلے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پھر شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ بعد ازاں اسے ایک بدیہی حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ لہذا کوئی بھی انسان کسی سے دادو تحسین کے لیے کوئی کام نہ کرے بلکہ توکل علی اللہ سے لگا رہے۔ایک ایک قطرہ اکٹھا ہو کر دریا بنتا ہے ۔ملک میں مذہبی اور سیاسی تنظیموں نے اپنی مددآپ کے تحت متاثرین کی مدد کرنا شروع کر رکھی ہے ۔جو خوش آئندہے ۔طلبا بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں یہاں کی اشرافیہ سرفہرست۔اسے خوفزدہ ہونا چاہیے۔غریب کے پاس تو کھونے کو کچھ نہیں۔ملکی وسائل کو نوچ کھانے میں سبھی ایک جیسے۔ ہر شعبے میں بدعنوانی کو فروغ دے کر ایسے مقام پر پہنچایا گیا۔ جہاں سے واپسی مشکل ہی نہیں ناممکن۔بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔غالب نے کہا تھا: کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی جب تک وقت ملک میں دیانتدار اور سخت حکمران نہیں آتا تب تک مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔اس وقت دنیا میں پانی کا توڑ ہو چکا مگر وطن عزیز میں یہ جنس نایاب ۔پانی کی بوند بوند کو ترستے لوگ ،اسی میں ڈوب رہے۔ لوگوں کا کام ڈیم بنانا نہیں اگر ہوتا تو بھارت کا ریکارڈ توڑ چکے ہوتے۔اس وقت چین 22 ہزار اور بھارت 4300ڈیم بنا چکا۔ ہم صرف منگلا اور تربیلا پر اکتفا کیے بیٹھے۔پھر ڈوبنا تو بنتا ہے۔ بھارت نے17برسوں 20ہزار کروڑ کی لاگت سے تاریخ کا سب سے بڑا بحری جہاز تیار کر لیا۔ جہاز بڑی بات ہم ایک ڈیم پر متفق نہیں ہو سکے۔بھارتی بحریہ کے پاس اس وقت 40 روسی ساختہ مگ 29طیارے ہیں جو وکرمائنیہ پر تعینات ہیں۔ آئی این ایس و کرائن جہاز کی لمبائی 262 میٹر اور اونچائی 60میٹر ہے۔ذرا موازنہ کریں۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ مانگے تانگے کے 16ارب ڈالر، ہمارا کل اثاثہ۔بھارت 600 ارب ڈالر‘ بنگلہ دیش کے پاس 54ارب ڈالر۔اس کے باوجود میرے وطن کا نوجوان دہلی کے دروازے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواب دیکھتا ہے۔ معاف کیجیے گا۔یہ بھارت کا دہلی دروازہ نہیں، لاہور کا ہو سکتا ہے۔ہمیں شاطر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا۔ لاریب کتاب میں ارشاد ہے: اور جہاں تک ممکن ہو گا کافروں کے مقابلہ کے لئے قوت اور جنگجو گھوڑے تیار رکھو۔ اس دور کے گھوڑے ایٹم بم‘ جدید ٹیکنالوجی اور بحری بیڑے ہیں۔ کانگریسی اس قدر شاطر اور چا لاک تھے کہ انھوں نے حالات دیکھتے ہوئے 1926ء میں ہی دریائے ستلج کا رخ موڑ دیا تھا۔انجینئروں کا وہ گروپ جو ایچ ڈبلیو نکلسن کی قیادت میں اس کام پر مامور تھا، رخصت ہوا تو انجینئر اجودھیا ناتھ کھوسلا اور بعدازاں شری کھوسلا نے چیف انجینئر کی ذمہ داری سنبھالی۔ہیڈ سلیمانی کے بعد کھوسلہ ہیڈ خانکی پھر تریموں ہیڈ ورک گیا۔1916ء سے 1947ء تک 31برسوں میں وہ پنجاب کے سلسلہ انہار کے ہر گوشے سے باخبر ہو چکا تھا۔ ربیع صدی کے بعد اس نے ہندوستان اور پاکستان کے نہری نظام پر تبصرے کرتے ہوئے کہا: ہندوستان ‘ پاکستان کو ریگزار اور سیلاب میں بدل سکتا ہے۔ وہ ایسا تعصب کی بنا پر نہیں، اپنے علم اور تجربے کی بنا پر کہہ رہاتھا۔ آج اس کی بات سچ ثابت ہوئی۔ وہ چند لاکھ سالانہ روپے خرچ کر کے پاکستان کے جاگیرداروں کو خرید کر کالا باغ ڈیم کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ایسے میں اگر ہم ڈوبیں گے نہیں تو کیا ہو گا۔ قدرت نے ہمیں مہلت دی ہے ۔ایک نئی زندگی ۔اگر ہم اب بھی نہ سدھرے تو پھر وقت کا فیصلہ اس قدر خوناک ہو گا کہ ہم سنبھل نہ سکیں گے۔