ممتاز کشمیری سیاستدان سردار سکندر حیات خان دنیا کے ہنگاموں سے بہت دور جابسے۔ طویل سیاسی اور سماجی زندگی بسر کی۔خوش بخت ایسے کہ آزادجموں وکشمیر کی صدارت اور وزارت عظمیٰ کا ہما ان کے سر اس وقت بیٹھا جب سردار عبدالقیوم خان کی مقبولیت اور سیاست کا سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ساٹھ کی دہائی میں سردار سکندر حیات کو والد سردار فتح محمد کریلوی ،جو خود بھی غیر معمولی شجاعت اور تحریک آزادی میں کردار کی بدولت بے پناہ عزت اور شہرت حاصل کرچکے تھے ، نے حکم دیا کہ دارالحکومت مظفرآباد جائیں جہاں راجہ حیدر خان ان کی سرکاری ملازمت کا بندوبست کریں گے۔راجہ حیدر خان نے تن وتوش،سرخ اور سفید اور ذرا شرمیلے سے سکندر حیات کو واپس کوٹلی لوٹ جانے اور وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں قسمت آزمانے کا حکم دیا۔ راجہ حیدر خان خود بھی ایک جہاندیدہ اور غیرت مند سیاست دان کی شناخت رکھتے تھے۔ سکندر حیات کا ستارہ وکالت میں نہ چمکا لیکن رفتہ رفتہ وہ آزادکشمیر کے مطلع سیاست پر اپنا نام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ستر کی دہائی میں سردار عبدالقیوم خان آزادکشمیر کے منتخب صدرتھے۔ اسلام آباد میں ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا کہ سیاسی اختلافات نے دونوں کے درمیان دشمنی کا رنگ اختیار کرلیا۔ سردار سکندر حیات اپنے قائد کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ پاکستان قومی اتحاد نے انہیں سیکرٹری جنرل بنایا۔ اس طرح وہ قومی سیاست میں بھی متحرک ہوگئے۔نواب زادہ نصراللہ خان، مولانا مفتی محمود، شا ہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، ولی خان سے لے کر قومی سطح کی ساری لیڈرشپ کے ساتھ راہ ورسم پیدا ہوئی تو سیاسی داؤ پیچ میں بھی تاک ہوگئے۔ سیاست سے بھٹو کا سورج غروب ہوا تو سردار عبدالقیوم خان کے عروج کی داستان لکھی جانے لگی۔جنرل ضیا الحق نے انہیں اپنا مرشد قراردیا۔ 1985کے الیکشن کے بعد گمان تھا کہ سردار عبدالقیوم خان وزیراعظم ہوں گے لیکن قرہ فال سردار سکندر حیات خان کے نام نکلا۔ پانچ برسوں میں تعمیر وترقی کا جو باب ان کے پیش رو صدر میجر جنرل حیات خان مرحوم نے لکھا تھا، اس میں خوب رنگ بھرا۔ بہترین منتظم ثابت ہوئے۔ سخت گیر سیاسی سودا گر تھے۔ آسانی کے ساتھ ٹلنے والے نہ تھے۔ اپنے کنبے اور قبیلے کا سیاست اور سرکاری ملازمتوں میں بھی حصہ رکھتے۔اس طرح مخالفین کی نکتہ چینی کاہدف بنتے۔ اگرچہ ان کے خاندان کا ایک بڑا حصہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پونچھ مینڈر میں رہ گیاتھا لیکن اس کے باوجود ان کی توجہ کا مرکز مقبوضہ کشمیر کم ہی رہا۔ ان کی سیاست کا خمیر آزادکشمیر کی مقامی سیاست سے اٹھاتھا۔ وہ اسی کے لیے جیے اور مرے۔ البتہ 2001 میں دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو اکثر اجتماعات میں کشمیر کی تاریخ کا تفصیل سے ذکر کرتے۔ کبھی بھی 1832 ء کی جدوجہد آزادی کا ذکر نہ بھولتے۔ ان شہدا کا ضرور تذکرہ کرتے آزادی کی جستجو میں جن کی زندہ کھالیں کھنچوائی گئیں۔ ا ن میں بھوسہ بھرکرایک درخت پر لٹکا دیا۔وہ درخت آج بھی منگ میں اہل پونچھ کی داستان شجاعت سنانے کو سلامت ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھارت کے ساتھ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا اعلان ہوا تو کشمیریوں کے مابین سیاسی مکالمے کا دروازہ کھلا۔ یہاں سے سردار سکندر حیات سے میرا رابطہ شروع ہوتاہے۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری اکرم سہیل نرے سرکاری افسر نہ تھے بلکہ شاعر اور ادیب بھی تھے۔ ان کے پریس سیکرٹری سردار عبدالخالق وصی بھی وکالت، طب اور صحافت کے شناور تھے۔ سری نگر سے مظفرآباد کے لیے بس سروس شروع ہونے کو تھی۔میرواعظ عمر فاروق، یاسین ملک، پروفیسر عبدالغنی بٹ اور مولانا عباس انصاری مظفرآباد تشریف لانے والے تھے۔وزیراعظم سکندر حیات خان مظفرآباد میں ان کے میزبان تھے۔ بتایا گیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں استقبالیہ تقریر لکھوں۔ عرض کیا کہ ضرور لیکن وزیراعظم کے ساتھ تبادلہ خیال کے بناان کے خیالات کو صفحہ قرطاس پر منتقل نہیں کیاجاسکتا۔ سکندر حیات نے ناشتہ پر مدعو کرلیا۔ کشمیر ہاؤس پہنچا تو سردار صاحب کو منتظر پایا۔تقریر کے اہم نکات پر گفتگو ہوئی۔ ایک دن بعد انہیں تقریر کا ڈرافٹ بھیج دیا۔جناب اکرم سہیل نے اپنے شعری ذوق کی تسکین کے لیے ایک دوشعروں کا اضافہ کیا۔ وزیراعظم سکندر حیات نے مظفرآباد میں کہا کہ کاش آج ہمارے درمیان سیّد علی گیلانی بھی موجود ہوتے تو محفل کا لطف دوبالا ہوجاتا۔ انہوں نے کشمیری تشخص ، سیاسی مفادات اورخطے کے سانجھے مستقبل کے لیے اسلام آباد اور دہلی کے ہمرکاب ہونے کا عندیا اس شرط پر دیا کہ اگر کشمیریوں کی خواہشات کا احترام کیا گیا۔ سردار سکندر حیات کی رخصتی سے کشمیرکی سیاست کا ایک باب تمام ہوگیا۔ یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جسے محض ایک نشست میں بیان کرنا محال ہے۔ 2011میں وزارت عظمیٰ کا دوسرا دور مکمل ہوا تو وہ ابھی میدان سیاست سے ریٹائرڈ ہونا نہیں چاہتے تھے لیکن انہیں کہا گیا کہ سردار عتیق احمد خان کے لیے جگہ خالی کرکے نکیال چلے جائیں۔بادل ناخواستہ انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کی لیکن اقتدار کا ہجر انہیں بے قرار رکھتا۔سردار عتیق احمد کی وزارت عظمیٰ کے خلاف جاری کوششوں کی سرپرستی کی حتیٰ کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی انہوں نے مسلم لیگ سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ گزشتہ الیکشن سے چھ ماہ پہلے اسی سردا ر عتیق احمد خان کے ہمرکاب ہوگئے جو زندگی بھر انہیں ایک آنکھ نہ بھاتاتھا ۔ دونوں شیر وشکر ہوئے۔مسلم کانفرنس کا پرچم تھام لیا۔ الیکشن میں دونوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ پاکستان تحریک انصاف لوگوں کے دلوں میں گھر کرچکی تھی۔پیپلزپارٹی دوسری بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری۔ سردار سکندر حیات کے صاحبزادے اپنی نشست تک ہار گئے۔ حالانکہ ان کے دادا سردار فتح محمد کریلوی مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں بھی تین مرتبہ اس نشست پر فاتح قرارپائے تھے۔کہتے ہیں کہ الیکشن میں شکست کا دکھ دم واپسیں تک انہیں بے کل رکھتا تھا۔یہ فقط سیاسی ناکامی نہ تھی بلکہ نوے برسوں سے قائم خاندانی سیاست کے خاتمے کا اعلان تھا۔ جدائی کا موسم ہے ۔کس کس کا ذکر کروں۔ اسی کی دھائی کے آخر ی پہر دبستان قائداعظم کے تراشیدہ ہیرے کے ایچ خورشید داستان کہتے کہتے سو گئے۔ سردار ابراہیم خان کی رخصتی پر درد کا ستارا ٹمٹما رہاتھا کہ سردار عبدالقیوم خان کی رحلت کا نقارہ قزاق اجل نے بجایا۔ ان کی قبر کی مٹی ابھی سوکھنے نہ پائی تھی کہ اعلان ہواکہ امان اللہ خان کو منوں مٹی تلے دفن کردیا گیا ہے۔ ہٹ کے پکے سردار خالد ابراہیم خان بھی خاموشی سے بزم سے اٹھ گئے ۔ اور اب سردار سکندر حیات خان۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا ؎ پھول مرجھا گئے ہیں سارے تھمتے نہیں ہیں آسماں کے آ نسو