پیپلز پارٹی اپنی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان کے باقی خطوں میں تو ختم ہورہی ہے مگر اب بھی سندھ میں سانس لے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی یہ تاثر پیش کرنیکی بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ سندھ سے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا مگر حقیقت یہ ہے کہ سندھ ہی پیپلز پارٹی کے لیے واٹرلو ثابت ہوگا۔ سندھ سے اس جماعت نے ہر طرح سے ووٹ حاصل کیے ہیں مگر بدلے میں سندھ کو غربت اور مزید غربت کے علاوہ کیا ملا ہے؟ سندھ باہر سے تو پاکستان کے باقی صوبوں کی طرح نظر آتا ہے لیکن کوئی سندھ میں داخل ہوکر اسے قریب سے دیکھے تواسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ کس اذیت سے گزر رہا ہے۔ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھاکہ جنگ میںجذبہ اچھا ناشتہ ہے مگر سپاہی رات کوخالی پیٹ سے نہیں لڑ سکتا۔ بینظیر کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس سوچنے اور سمجھنے والی قیادت باقی نہیں بچی۔ اب پیپلز پارٹی اپنے مشیروں کے مشوروں سے سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہے۔ اس ضمن میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے مشیر امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ غربت زدہ عوام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔اس لیے ان کے مشورے اس فرانسیسی ملکہ جیسے ہوتے ہیں جس کو بتایا گیا تھا کہ ملک میں قحط کی صورتحال ہے۔ لوگوں کو کھانے کے لیے روٹی نہیں مل رہی۔یہ بات سنکر ملکہ نے کندھے اچکا کر کہا تھا لوگ تواحمق ہیں۔ اگر ملک میںروٹی میسر نہیں ہے تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟ایسا ہی کچھ حال ہے پیپلز پارٹی کے مشیروںکا! ان کا تعلق عام لوگوں سے نہیں ہے۔ وہ دنیا میں چلنے والی اور کامیاب ہونے والی تحریکوں کو دیکھ کر بلاول کو مشورے دیتے ہیں اور بلاول ان پر عمل کرنے کے احکامات جاری کردیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بلاول کو ان کے تھنک ٹینک نے مشورہ دیا کہ جس طرح بھارت میں کسانوں کی تحریک چلی ویسے ہی سندھ کے کسانوںکو ملاکر اگر ٹریکٹر ٹرالی مارچ کا انعقاد کیا جائے تو میڈیا میںاس احتجاج کو بھرپور کوریج ملے گی اور ساتھ ساتھ سرائیکی بیلٹ سے بھی اس قسم کا احتجاج شروع ہونے سے ٹریفک کے مسائل پیداہونگے اور وفاقی حکومت پریشان ہوگی۔اگر اس قسم کا مشورہ کوئی بینظیر بھٹو کے سامنے پیش کرتا تواس کا حشر بہت برا ہوتا۔ بینظیر بھٹو بھی اپنی پارٹی سے مشورے لیتی تھیں مگر ایک توان کے ساتھ کام کرنے والے بہت ذہین اورلوگوں سے جڑے ہوئے ہوتے تھے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ بینظیر بھٹوکی سیاسی سوچ سے اچھی طرح آگاہ ہوتے تھے۔ اس کے باوجود وہ اپنی قائد کے سامنے کوئی مشورہ پیش کرنے سے قبل سو بار سوچتے تھے۔ بینظیر بھٹوکے وقت میں ایسا نہیں ہوتا تھا کہ جو دماغ میں خیال آیا مشورے کے صورت داغ دیا۔ اگر بینظیر بھٹو کو کوئی ٹریکٹر ٹرالی احتجاج کا مشورہ دیتا تو وہ انہیں کہتی کہ آپ حکومت کے خلاف احتجاج کر ہے ہیں یا عوام کے خلاف؟ جس عمل سے عوام پریشان ہوںوہ عمل کسی پارٹی کے حق میں نہیں ہوتا۔ عوام کی تکالیف کااحساس عوامی لیڈر کوہوتا ہے۔ جس نے عوام کی غربت اور عوام کے مسائل کو دل سے محسوس نہیں کیا وہ کیا جانیں کہ لوگ کیسے جڑتے ہیں؟ان کو کیا پتہ کہ لوگوں کے دل میں گھر کیسے بنایا جاتا ہے۔ ان کو تو صرف اقتدار سے مطلب ہوتا ہے۔ وہ کیا جانیں کہ اقتدار کے لیے کبھی کردار کوقربان نہیں کیا جا سکتا۔ بینظیر بھٹو کی سیاسی پرورش احتجاج کی آغوش میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ہر قسم کی سختیاںجھیلیں تھیں۔ ان کو معلوم تھا کہ عام لوگ کتنی تکلیف سے جیتے ہیں؟ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری سیاسی لیبارٹری کی تخلیق ہیں۔ان کو نہیں معلوم کہ مٹی کی خوشبو کیسی ہوتی ہے اور کسان کے پسینے سے آنے والی بو کا سیاسی جدوجہد میں کیا کردار ہوتا ہے۔ بلاول کو زبردستی لیڈر بنایا گیا ہے اور انہیں جبری طور پر بینظیر بھٹو کی طرح بات کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔ ایک روسی شاعر نے لکھا تھا کہ انسان پیسے سے لباس خرید سکتا ہے مگر کردار نہیں۔ سیاست لباس نہیں بلکہ کردار ہوتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ ابھرنے یا ابھارے جانے والے لیڈران کو بتایا جاتا ہے کہ سیاست میںلباس کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔اس لیے آج کل کے لیڈر بن ٹھن کر میڈیا کے سامنے آتے ہیں اور وہ اپنے لباس پر لاکھوں روپے لٹا دیتے ہیں۔ بلاول ڈائس پر آکر ہمیشہ زور سے نعرہ لگاتا ہے کہ ’’جیئے بھٹو‘‘ کیا اس کو معلوم ہے کہ جس لیڈر کے نام پر وہ اپنی سیاسی دکان چلارہے ہیں وہ شیروانی کالر والی قمیض پہن کر اپنے آستین بندکرنا بھول جاتے تھے۔سیاست ایک خوبصورت خیال ہوتا ہے۔ وہ خوبصورت خیال عوام میں عملی طور پر شامل ہوکر اور زیادہ خوبصورت ہو جاتا ہے۔ پاکستان میںغیر عوامی سیاست کی ابتدا کس طرح ہوئی اور اس میں کون سے سیاستدانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا؟ اس سوال پر بھی تحقیق ہونی چاہئے مگر میڈیا کے معرفت تعلقات بنا کر سیاسی حیثیت بنانے والوں کوبہت جلد یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ جس سیاست کی بنیاد عوام پر نہیں ہے کہ وہ سیاست عوامی اور جمہوری نہیں ہوسکتی۔ سیاست صرف جوڑ توڑ کا نام نہیں۔ سیاست عوامی امنگوں پر پورا اترنے کا نام ہے۔سیاست عوام کی امیدوں کو روشن کرنے کا عمل ہے۔ سیاست اقتداری جوا نہیں ہوتی۔ سیاست صرف چالوں کا مجموعہ نہیں ہوتی۔ سیاست کتابوں اور لوگوں کے درمیاں ابھرنے والے گلابوں کی بہار ہے۔ سیاست میں اگر عوام کو کچھ نہیں ملتا تواس سیاست کا چلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سیاست لینے کا نام نہیں۔ سیاست دینے کا نام ہے۔پیپلز پارٹی نے گذشتہ تیرہ برسوں سے بھٹوز کے نام پر سندھ کے عوام سے ووٹ لیے ہیں اور نوٹ کمائے ہیں۔انہوں نے عوام کو دکھ اور درد کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا۔ سندھ کے لوگ ایک عرصے سے کسی ایسے سیاسی مسیحا کے منتظر ہیں جو ان کی جان پیپلز پارٹی کے اس گروہ سے چھڑائے جس نے کرپشن کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی تنظیمی صفوں میں اختلافات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ پی پی لیڈروں کی زبانیں ایک دوسرے کے خلاف کھلنا شروع ہوئی ہیں۔ بلاول میں وہ بات نہیں جو پارٹی کے بکھرتے ہوئے کارواں کو منظم کر پائے۔ ان کے والد آصف زرداری نے ایک عشرے سے زیادہ برسوں تک پیپلز پارٹی کو اپنے خوف سے جوڑ کر رکھا۔ اب جب ان کی صحت بہت کمزور ہو گئی ہے ؛ وہ پارٹی کے حلقوں میں اس طرح خوف کی علامت نہیں رہے جس طرح پہلے تھے۔ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری میں بنیادی فرق یہ تھا کہ بینظیر بھٹو نے پارٹی کو محبت سے جوڑ کر رکھا اور ان کے بعد آصف زرداری نے پارٹی کو خوف میں مبتلا کرکے اپنی مٹھی میں بند کیا۔ بینظیر نے محبت کے بنیاد پر سیاست اپنے والد سے سیکھی تھی جب کہ بلاول اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے اپنے والد سے دہشت کا ہنر حاصل کرنے کے سلسلے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ اس لیے انہوں نے چالاک مشوروں سے پارٹی کو چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ کاروبار کے گر سیکھنے سے بہتر ہے کہ کاروبار سیکھا جائے۔مگر بلاول بھٹو زرداری کو کون سمجھائے!!!؟؟؟