ہماری زندگی میں ایک نیا موڑ اُس وقت آیا جب ایک دن بطور ایک لااُبالی طالب علم پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے فارسی کی کلاس پڑھ رہے تھے اور اگلے روز سیالکوٹ کے فیڈرل کالج میں ذمہ دار استادبنے کھڑے تھے۔ نوکری ملنے کے بعد لوگوں کی زندگی میں یقینا خوبصورت اتفاقات رونما ہوتے ہیں ہمارے حصے کے اتفاقات میںایک مولوی صاحب نمایاں تھے۔ اجنبی شہر میں کنوارے اساتذہ نے جو مشترکہ مکان کرائے پر حاصل کیا، اس میں مولانا اسلم قریشی میرے ہم کمرہ ٹھہرے، جو اسلامیات کے استاد تھے۔ ایک مخلص دوست ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری کا اچھا ذوق اور گفتگو کا عمدہ مذاق بھی رکھتے تھے۔ دوسرے معنوں میں واعظِ خشک ہر گز نہ تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں جب کبھی کمرے میں جائے نماز بچھا کے قبلہ رُخ کھڑا ہوتا تو وہ میرے قریب سے مسکراتے ہوئے، دھیمے سروں میں یہ مصرع گنگناتے گزر جاتے: تیرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں؟ مولانا تو رہے ایک طرف،ہم نے عام زندگی میں بھی لٹریچر کے اساتذہ سے متعلق لوگوں کا حسنِ ظن ، حسنِ زن میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ہماری پرورش بھی چونکہ اسی معاشرے میں ہوئی ہے، جہاں کسی سوال کا جواب لُغت کی بجائے جُگت میں تلاش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم بھی سلام پھیرنے کے بعد مولانا کی طرف منھ کر کے ارشاد فرماتے: محبت کو سمجھنا ہے تو خود محبت کر ناصح کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا ایک روز وہی مولانا بڑی رغبت سے فرمانے لگے: ’’آج شام کو ہم سیالکوٹ اسٹیشن چلیں گے، مَیں نے سنا ہے کہ وہاںپہ چانپیں بڑی اچھی تیار ہوتی ہیں، اور یہ بات آپ کو معلوم ہونی چاہیے کہ گوشت کھانا حضورﷺ کی سنت ہے۔‘‘ ہم پہلے ہی کسی بحث طلب موقع کی تلاش میں ہوتے ، عرض کیا: ’’مولانا! نبی محترمﷺ کی حیات طیبہ پر ایک سرسری سی نظر ڈالنے سے بھی بہ خوبی علم ہو جاتا ہے کہ آپﷺکی آدھی زندگی فاقوں میں بسر ہوئی، کیوں نہ آج فاقے کی سنت پر عمل کیا جائے؟‘‘ ہمیں تسلیم کہ ہم نے یہ دو ٹوک جواب فاقہ کرنے کی نیت سے نہیں، بلکہ محض مولانا سے وقتی جیت کے لیے دیا تھا، لیکن صاحبو! آج تک یہ نکتہ ہمارے ذہن پہ لگاتار دستک دیتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہب اور سنت نبویﷺ کو اختیار کرنے کے معاملے میں بھی احترامِ رسول ﷺ سے زیادہ ذاتی پسند ناپسند یا مالی و معاشرتی مفادات کو دخل ہے۔ ہمیں حلوہ کھانے والی سنت تو یاد ہے، پیٹ پر پتھر باندھنے والی نہیں۔ کسی کا دل رکھنے والی نہیں۔ ہم حج پر جاتے ہوئے اپنی کمائی کی نوعیت پر غور نہیں کرتے، بلکہ ’’حاجی صاحب‘‘ بن جانے کے بعد ملنے والے مفادات پہ آنکھ رکھتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی میں طریقہ رسولﷺ کو اپنانے کی بجائے اپنے فرقے کے مولوی کی نصیحت اور تاکید کو اپنا دھرم سمجھتے ہیں۔ افطاری کرواتے ہوئے شرعی ثواب اتنا ذہن میں نہیں ہوتا، جتنا دولت سے مرعوب کرنے کا خیال جاگزیں ہوتا ہے۔ بڑے بڑے سرکاری آفیسرز، ناظمین اور ممبران اسمبلی کی قومی خزانے سے کرائی جانے والی افطاریوں کو تو باقاعدہ مزاحیہ پروگرموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے بیشتر علما کے ہاں دینی اجتماعات میں تبلیغ دین پیش نظر کم ہوتی ہے اور اپنی شعلہ بیانی کی دھاک بٹھانے کا خیال زیادہ دل میں ہوتا ہے۔ ہمارے بعض مذہبی چینلوں پر دین کے نام پہ جو جو کچھ ہو رہا ہے، سب آگاہ ہیں۔ ہمارا واعظ اور نعت خواں اپنی رنگ برنگی پگڑیوں کے زعم اور سریلی دھنوں کی مستی میں احترام رسولﷺ کی حدوں سے باہر جا پڑا ہے۔ فلمی گانوں کی طرز پہ پڑھی جانے والی نعتوں کے سلسلے میں رسول معظمﷺسے جس اندھی عقیدت کا مظاہرہ ہم ربیع الاول کے مہینے میں کرتے ہیں، وہ سب سے زیادہ خوفناک ہے۔ ہم اپنی جہالت کے بل بوتے پر جو محبت دنیا کی سب سے عظیم ہستیﷺ پر نچھاور کر رہے ہیں۔ اگر اسی انداز محبت کا مظاہرہ ہم اپنے والد محترم کے سامنے کریں تو وہ شام سے پہلے ہمیں گھر سے نکال دیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ گلیوں میں لوگوں سے جبری چندہ اکٹھا کرنے، رات کو ڈیک پہ فحش گانے چلانے، سرعام بھنگڑا ڈالنے کو آپ عقیدت کے کون سے درجے میں رکھیں گے؟ کسی نے کیا طنز بھرا پیغام بھیجا ہے کہ ہمیں تو چائنا مارکہ لائٹوں نے بچا لیا ورنہ ہمارے لیے اعمال سے نبی ﷺ سے محبت کا اظہار تو کسی طرح ممکن نہ ہو پاتا۔ اگر آپ کائنات کی سب سے محترم ہستیﷺ سے لگائو یا محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو سن لیں۔ وہ ہستیﷺ بیٹی کی پیدائش پر شرمندہ ہونے کی بجائے اس کے لیے جگہ خالی کر دیا کرتی تھی۔ وہ ہستیﷺ عرب کے ایک کرپٹ ترین معاشرے میں صادق اور امین کے نام سے جانی جاتی تھی۔ وہ ہستیﷺ پتھر مارنے والوں سے بدلہ لینے کی بجائے ان کے لیے ہدایت کی دعائیں مانگا کرتی تھی۔ وہ ہستیﷺ خود پر کوڑا پھینکنے والوں کی عیادت کے لیے جایا کرتی تھی۔ وہ سود اور ملاوٹ والوں کو دین سے خارج قرار دیتی تھی۔ وہ ہستیﷺ بن بلائے مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے اپنی کالی کملی زمین پہ بچھا دیا کرتی تھی۔ وہ ہستی نقص بتا کے مال بیچنے پر اصرار کرتی۔ وہ ہستیﷺ جو عام آدمیوں کے ساتھ گھل مل جانے، ان کو اپنے کھانے میں شریک کرنے، گدھے پر سواری کرنے، بکریوں کا دودھ دوہنے اور صحابہ کرامؓ اور ازواج مطہرات کے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھ سے کپڑوں کو پیوند لگانے اور جوتے گانٹھنے کو عار نہیں سمجھتی تھی۔ وہ ہستیﷺ جو ایک وقت سے زائد کھانے کی اشیا محتاجوں میں تقسیم کر دیا کرتی تھی۔ وہ ہستیﷺ جو اللہ کے حکم کو دنیا کی ہر طاقت سے مقدم سمجھتی تھی۔ وہ ہستیﷺجو منافقت کو کفر سے بڑا گناہ قرار دیتی تھی۔ وہ ہستیﷺجو اللہ کے راستے میں حارج ہونے والی قبیلے کی سرداری، خوب صورت عورت سے شادی، چاندی سونے کے ڈھیروں کو جوتے کی نوک پر رکھتی تھی۔ وہ ہستیﷺ جو حق و باطل کے معرکے میں مقدار کی بجائے معیار پر یقین رکھتی تھی۔ وہ ہستیﷺ جو بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی درگزر کا سلیقہ جانتی تھی۔ آج آپ صرف شادی جیسے اہم فریضے کا نبی ﷺ کی زندگی سے موازنہ کر کے دیکھ لیں، کہ آپ کی پہلی شادی میں دلھن، دولھا سے پندرہ سال بڑی ہے، خاتون دو بار بیوہ اور دولھا کنوارا ہے، شادی کا پیغام خاتون طرفٖ سے آیا ہے، پھر اہم بات یہ کہ خاتون بزنس کرتی ہے۔ اندازہ لگا لیں کہ ان چار بنیادی سنتوں پہ ہم کس قدر عمل پیرا ہیں؟ آپﷺ کے یہ تمام اقوال و افعال احادیث کی صورت میں اور آپﷺ کا مکمل اخلاق قرآن کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر ہم نے اپنے اخلاق و افعال کو اس طرز پر ڈھال لیا ہے تو ہماری نعت بھی گوارا ہے۔ ہمارا میلاد بھی قبول اور اگر ہماری زندگیوں میں قرآن و سنت کا عکس موجود نہیں ہے تو ہم جو بھی کر لیں۔ وہ دل بہلاوے کے مشغلے ہیں، دنیاداری کے ڈھوکوسلے ہیں، مطلب مفاد کی ڈرامے بازیاں ہیں۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔