مجھے یہ منظر اچھا لگا کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان پہلی بار کسی غیر ملکی مہمان کو لینے ایئرپورٹ پہنچے اور اسے خود ڈرائیو کرتے ہوئے اس وزیراعظم ہائوس میں لائے جسے عارضی طور پر اس تقریب کے لیے کھولا گیا ہے۔ اب کوئی لاکھ فقرہ بازی کرے کہ کشکول جو بھروانا تھا، اس لیے راہوں میں بچھے جا رہے ہیں مگر یہ ایک ایسا اقدام ہے جسے قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ کاش ہم نے پہلے اس طرح کی غلطی نہ کی ہوتی۔ نئی حکومت کے آتے ہی سب سے پہلے ہمارے ہاں چین کے وزیر خارجہ آئے تھے اور ہم نے ان کے استقبال کے لیے شاید کسی ڈپٹی سیکرٹری کو بھیج دیا تھا۔ مہمان کے جاتے ہی یہ شہبازشریف تھے جنہوں نے دہائی دی کہ ہم نے یہ کیا بیوقوفی کی ہے۔ اصل میں ان دنوں ہمارے حکمران سی پیک سے چڑے ہوئے تھے۔ ان کا ایک مشیر وزیر برطانیہ کے اخبار کو انٹرویو دے کر یہ مشورہ دے رہا تھا کہ ہمیں سی پیک کے منصوبے ایک سال کے لیے موخر کردینا چاہئیں۔ ہم ان منصوبوں کی شفافیت کی بھی بات کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ گزشتہ حکومت نے سی پیک سے بہت کمایا ہے۔ وہی وزیر جنہوں نے ان منصوبوں کو موخر کرنے کی بات کی تھی۔ اب ایک چینی کمپنی سے مل کر مہمند ڈیم کا ٹھیکہ لے رہے ہیں۔ سرمایہ داروں کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ چلئے خارجہ پالیسی بھی کاروبار سہی، ہم یہ کاروبار ذرا ڈھنگ سے کرلیں اور ملکی مفاد کو پیش نظر رکھیں تو کیا حرج ہے۔ خطے کی صورت حال بدلتی جا رہی ہے۔ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ امریکہ کو احساس ہو چلا ہے کہ اسے بہت کچھ کرنا ہے جس میں پاکستان کو آن بورڈ رکھنا پڑے گا۔ ہماری ساری کوششیں اسی ایک نکتے کے گرد گھوم رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ اگرچہ ہمارے بہت سے باہمی مفادات ہیں، تاہم ان میں بعض تحفظات پیدا ہوتے جا رہے تھے۔ صرف یہ نہیں کہ گوادر کی بندرگاہ وجۂ نزاع تھی۔ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دوبئی کی حریف ثابت ہوسکتی ہے۔ ایران کا بھی یہ معاملہ ہے۔ وہ چاہ بہار میں گوادر کی حریف بلکہ رقیب بندرگاہ بنانا چاہ رہا ہے۔ بعض سلامتی کے مسائل بھی تھے جن کی وجہ سے اندرون خانہ تلخیاں پنپ رہی تھیں۔ بعض پاکستان دشمن عناصر نے دبئی کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا اور وہاں سے آپریٹ کر رہے تھے۔ ہم بھی تو اپنے دشمن کے خلاف وہاں سے ایسا کرتے ہوں گے۔ پھر یہ جھگڑا تو ہمارا ایران کے ساتھ بھی تھا۔ ایک معاملے پر جب ترکی اور متحدہ عرب امارات میں سے کسی ایک کو ووٹ دینے کا مسئلہ آیا تو ہم نے ترکی کا ساتھ دے ڈالا۔ یہ بات بھی امارات میں بہت محسوس کی گئی۔ وہ پہلے ہی یمن کے مسئلے پر ہم سے نالاں تھے۔ کوئی سنجیدگی سے اس کا تجزیہ کرے کہ ہم نے یمن پر یہ مؤقف کیوں اختیار کیا تھا۔ کیا ایران کی دوستی میں یا کوئی اور وجہ تھی۔ پہلے تو ہم تیار ہو گئے تھے، پھر کیوں بھاگ گئے۔ ہماری پارلیمنٹ سمجھتی ہے، یہ اس کا ’’کمال‘‘ ہے حالانکہ بعض لوگ اسے کمال نہیں حماقت سمجھتے ہیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ امریکہ ایسا نہ چاہتا ہو۔ اس بات کی خبر کون پاکستانی عوام کو دے گا۔ ہمارے سکیورٹی ادارے پہلے سرگرم تھے۔ آرمی چیف خود وزیراعظم کے ساتھ دورہ کر کے آئے تھے۔ تمام تیاریاں ہورہی تھیں۔ پھر ہم نے دوسرا موقف کیوں اختیار کیا۔ انہی دنوں امارات کے ایک وزیر نے پاکستان کے بارے میں بڑا معنی خیز بیان دیا۔ ہمارا مسئلہ صرف پیسہ نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ خلیجی ممالک میں پاکستانیوں کی اکثریت کام کرتی ہے۔ انہیں افرادی قوت کی ضرورت ہے جسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہم ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرتے رہے ہیں۔ یہ کہا گیا کہ لے جائو اپنے لوگ ترکی میں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ مودی کو غیرمعمولی پذیرائی بھی دی گئی اور بھارت میں سرمایہ کاری کا اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ ویسے افرادی قوت پاکستان ہی سے نہیں جاتی، اس سے زیادہ بھارت سے جاتی ہے۔ ایران ہو یا عرب ممالک، ہر جگہ بھارت کے لیے ترجیحی رویہ ہمیں ہمیشہ دکھ پہنچاتا ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے آرمی چیف اور وزیراعظم نے سعودی عرب اور ایران کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ ہم یمن کے مسئلے پر مفاہمت کرائیں گے۔ سعودی عرب نے اسے ہنس کر ٹال دیا اور ایران کو ہم نے یہ جواب دیا کہ ان کے صدر روحانی کے دورے پر ہم نے کلبھوشن کا قصہ چھیڑ دیا۔ جس پر صدر روحانی نے کہا کہ جب بھی کچھ بات آگے بڑھنے لگتی ہے، کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جنرل راحیل نے ایرانی صدر سے یہ کھلی بات کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد سعودی عرب میں اتحادی فوج کی سربراہی قبول کرلی مگر بات پھر بھی بن نہ سکی۔ بات تب بنی جب صورت حال میں بنیادی تبدیلی آئی۔ پھر بھی شاید معاملات میں تیزی نہ آتی کہ ترکی میں سعودی صحافی کے قونصل خانے میں قتل کردینے کا واقعہ ہوگیا۔ اس کا اتنا شدید ردعمل ہوا کہ سعودی عرب دنیا میں تنہا رہ گیا۔ الزام خاص کر سعودی ولی عہد پر آنے لگا۔ سرمایہ کاری کی جو کانفرنس سعودی عرب میں ہونے والی تھی، اس سے امریکہ سمیت سب کو بائیکاٹ کرنا پڑا۔ ایسے میں دعوت ہم تک آ پہنچی۔ ہم نے درست کیا، اس کا فائدہ اٹھایا۔ سو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ دور ہماری اسی پیش قدمی کا مثبت جواب ہے۔ ہمیں دو چار باتیں حتمی طور پر سمجھ لینا چاہئیں۔ 1۔ خلیجی سیاست کے معاملے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک ہیں۔ 2۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النہیان کو امریکی پالیسی میں خطے میں مرکزی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ سعودی صحافی کے قتل کے بعد غالباً سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی ذرا پیچھے ہٹ گئے ہیں اور سامنے ابوظہبی کے ولی عہد ہی ہیں۔ وہ پہلے بھی اہم تھے۔ اب مزید اہم ہیں، امریکہ کی نظر میں۔ 3۔ پاکستان سے ایک تضاد تو گوادر کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جو پاکستان کا ایران سے بھی ہے۔ دوسرا تضاد سلامتی کے معاملات ہیں۔ بعض قوتیں امارات سے آپریٹ کرتی ہیں۔ عرض کیا، ایسا ایران سے بھی ہوتا ہے۔ پھر دبئی سے ہم بھی تو ایسا کرتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے ہمارے سلامتی اداروں کو اس پر اعتراض ہو۔ 4۔ ہمیں اس بات پر دبائو میں لایا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک ہماری افرادی قوت کو اپنے ہاں جگہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں زرمبادلہ آتا ہے۔ ہماری شکایت یہ ہے کہ یہ ممالک بھارت کو ہم پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ سب خارجہ پالیسی کے معاملات ہیں جن سے معاشی مفادات بھی جڑے ہوتے ہیں۔ 5۔ یمن کے مسئلے پر ہم نے جو رویہ اختیار کیا، اس کی ابھی تک کوئی مناسب توضیح سامنے نہیں ہے۔ ہم نے ایران کو بھی ناراض کیا اور اپنے عرب دوستوں کو بھی مگر جو اب میں ردعمل ذرا زیادہ ہی شدید آیا کہ کھلے عام بھارت کی طرف جھکائو ظاہر کردیا گیا۔ اس سب کے باوجود یہ بات اب چھپائے نہیں چھپتی کہ ہمارے تعلقات فطری ہیں اور بالآخر سب کو اس طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ اب ایک آخری بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ باہمی چپقلش کے باوجود ایک بڑے منظر نامے میں ہمیں علاقے میں اور بھی ضرب تقسیم کرنا پڑتی ہے۔ یہ ممالک قطر سے ناراض ہوئے، مگر امریکہ کا قطر میں ٹھکانا موجود رہا۔ طالبان سے مذاکرات بھی وہ بذریعہ قطر کر رہا ہے کیونکہ طالبان متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب آنے پر شاید زیادہ خوش نہ ہوں۔ ترکی، قطر کے ساتھ ہے۔ ہزار اختلافات کے باوجود امریکہ کسی صورت اپنے نیٹو اتحادی ترکی کو چھوڑ نہیں سکتا۔ ہمیں مشرق وسطیٰ کے گلوبل نقشے میں اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے اور شاید ہم سمجھ رہے ہیں۔ طیب اردوان کے خلاف مسلح بغاوت ہو چکی ہے۔ اردوان اس میں فتح اللہ گولن کو مرکزی کردار سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں گولن کا بھی اسلامی حلقوں میں بڑا احترام ہے جو کام نوازشریف نہ کرسکے، وہ عمران خان نے کردیا ہے جب مشترکہ علامیہ میں گولن تحریک کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ پاکستان نے ترکی کے کہنے پر اس تحریک اور اس کے افراد کے خلاف بہت کچھ کیا مگر یہ آخری سٹروک تو کپتان ہی نے کھیلا۔ کیا ہمیں اس سے کچھ مدد ملے گی۔ اور آخری سے بھی آخری بات۔ کیا ہم یہ سب کچھ امریکی کیمپ میں لوٹنے کے لیے تو نہیں کر رہے۔ مطلب یہ کہ کیا ہم سی پیک کو نظرانداز تو نہیں کرنا چاہتے۔ ابھی تک چین سے کوئی اچھی خبر نہیں آئی ہے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام بھی تعطل کا شکار ہے۔ دیکھنا، یہ حماقت نہ کرنا۔ پاکستان اس دوستی کی یہ قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اصل امتحان یہی ہے۔ اس دورے کے بعد آپ منی بجٹ پیش کرلیں، پھر آئی ایم ایف سے معاملات کو نپٹالیں۔ پھر آپ کے سامنے سی پیک کا چیلنج ہوگا۔ اس پر الگ سے بات ہوگی۔ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ چین خاموشی کے ساتھ ہماری مجبوریوں کا ساتھ دے رہا ہے۔ ہمیں بھی مستقبل کے روشن امکانات سے اپنی نظریں نہیں ہٹانا چاہیے۔ کیا آپ سمجھ گئے ہیں نا!